اوسلو (سید سبطین شاہ) اسے ایک محاورہ ہی سمجھ لیں لیکن ایک سچائی ہے کہ کچھ افراد کو خدا وند تعالیٰ نے لوگوں کو جوڑنے کے لیے بنایاہوتاہے۔ ایسی ہی ایک مثال ناروے کے دارالحکومت اوسلومیں ایک پارٹی کی دی جاسکتی ہے۔ ظاہراً تو یہ ایک عام اجتماع ہی لگ رہا تھا لیکن اس کے پیچھے ایک مقصد تھا جس سے دوسروں کوبھی ایک مثبت پیغام دیاجاسکتاہے۔خاص طورپر آج کی پریشانیوں کے اس عالم میں پرانی یادیں تازہ کرکے بھی تو دل بہلایاجاسکتاہے اورمزید زندگی میں راحت لانے کے لیے ایک دوسرے کے تجربات سے بھی استفادہ کیاجاسکتاہے۔
اس تقریب کی کامیابی کا زیادہ تر سہرا ایک شخص کے سر ہے جو اپنی سادہ طبعیت اورخلوص نیت کے لیے شہرت رکھتاہے۔ سیدابرارشاہ شکل سے تو ایک بھولابھالاسا انسان لگتاہے لیکن سماجی رابطوں کے لیے اس کے اندر ایک جذبہ کارفرماہے۔سید ابرارشاہ نے اعتراف کیاکہ اگرچہ ابتداانہوں نے ہی کی لیکن اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں ان کے ساتھ آفتاب افسر خان، محمد قدیر، اعجازاحمد، محمد اعجاز، صغیراوردیگرکا بھرپورتعاون تھا۔ تیس سال سے بچھڑے اوسلوکے ان طلباء اور اساتذہ کی ری یونین بھی اس جذبے کا نتیجہ ہے جس نے اس اجتماع کے بعض شرکاء کوتو اشکبارکردیا۔
خوشی کے آنسو بھی بڑے عجیب ہوتے ہیںجو کھوئے ہوئے اپنوں کے ملنے پر آنکھوں کو تر کردیتے ہیں۔ایک اور دلچسپ بات یہ تھی کہ جوں ہی کوئی استاد تقریب میں شرکت کے لیے دروازے سے وارد ہوتاتھا تو ان کے سابقہ طلبہ استقبال کے لیے اس طرح لپکتے تھے کہ جیسے کوئی وی وی آئی پی آیاہواور لوگ اس سے آٹوگراف لے رہے ہوں۔
اس تقریب میںشریک نارویجن اساتذہ میں ماری میتھے ستران، اینگرہاگے موہن، بیورن لفتو، آنے لنستاداور ایوابیک، نارویجن پاکستانی اساتذہ میں مسعود منور، خالدحسین تتھال، ارشد بٹ، فاحیلہ نوازاور چوہدری مبارک شامل تھے ۔ تقریب میں شریک طلبہ میں ابرارشاہ کے علاوہ صغیر، اعجاز، حفیظ ، مظہر، ساجد ، عاشق، وقار، حبیب الرحمان، عزیزالرحمان(وائس آف اوسلو)،عرفان انعام الٰہی، اعجاز، تنویراحمد، اعجاز، عامراقبال، مدثراقبال، قمرضیائ، آفتاب افسر، مہتاب افسر، جاویداختر،مدثر چیمہ، واصف، عثمان پرویز، اقبال ڈوگر، فیصل ، راشد، افضل ضیائ، فضل الرحمان بابر، مرزا شکیل، شکیل احمد، نصیرشاہ، ارشد، عدیل اشرف،اظہر منیر، ہارون ، حاجی افضل، راجہ کامران، ساجد الٰہی، محمود، اظہراحمد، یاسر، صدیقی، عابد حسین، قیصراور کامران قابل ذکرہیں۔یہ تقریب ختم ہونے کا تونام ہی نہیں لے رہی تھی۔
اساتذہ نے اپنی مدبرانہ گفتگو سے نوازا اوران کے علاوہ طلبہ میں تقاریرکرنے والوںمیںسید ابرارشاہ، آفتاب افسر، مہتاب افسر، ارشدجمیل، عثمان پرویزاور عامر مقبول شامل تھے جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ریڈیووائس آف اوسلوکے قدیرنے انجام دیئے جنکی دراززلفیں مشہورہیں۔اس دوران خاتون رفعت سلطانہ نے صوفیانہ کلام سنایا، عامر اور عرفان نے دوستی کے ترانے گائے اورکچھ نے مائیے ، ٹپے اور شعروشاعری سے شرکاء کو محظوظ کیا۔ تقاریرکے علاوہ ہرکسی نے پرانی کہانیاں دہراناشروع کردیںاورپھراپنی نئی صورتحال سے بھی اپنے سابقہ ساتھیوں کو آگاہ کرتے رہے۔سب شرکاء نے اس محفل کو سجانے کے لیے مخلصانہ کاوشوں پر سید ابرارشاہ کا شکریہ اداکیا۔
انھوں نے بھی کہاکہ وہ اس تقریب کے انعقاد اورمالی تعاون پرتمام دوستوں کے اور اساتذہ کی آمد پر ان کے بھی شکرگزارہیں۔جب راقم نے ابرارشاہ سے پوچھاتیس سال بعداساتذہ اور کلاس فیلوزکو ملانے کا مقصد کیاتھا؟ کیا یہ محض شوق ہی تھا یا پھر کوئی اہداف بھی پنہاں تھے۔ وہ کہنے لگے ، میری بڑی چاہت تھی کہ ایک بار پھر کلاس فیلوزآپس میں مل بیٹھیں اوراپنااپنا دکھڑاایک دوسرے کوسنائیں۔ا س کا مقصدیہ تھا کہ سابقہ دوست اپنے مسائل کوایک دوسرے کے ساتھ بیان کرکے اپنی پریشانیاں ہلکی کریںاور اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم میں جو کمی رہ گئی ہے ، وہ اپنے بچوں میں نہ رہنے دیں۔
تقریب میں لذیذپاکستانی کھانوں سے تواضح کی گئی۔ شام چھ بجے آنے والوں میں تو بعض ایسے تھے کہ رات تین بجے تک بھی بیٹھے رہے۔اوسلوکی یہ ری یونین پارٹی بڑی دلچسپ اور سبق آموز تھی جو لمبے عرصے تک یادرکھی جائے گی۔