اوسلو (سید حسین) میرے ایک ہی دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستان میں ترقی آئے اور یہ ملک پرامن اور خوشحال ہوجائے۔ اگرتدارک نہ ہوا، دہشت گردی اورانتہاپسندی دیمک کی طرح پاکستان کو تباہ کردے گی۔ ان خیالات اظہارتحریک پاکستان کے معمرکارکن حاجی افضل خان المعروف بابائے موس نے پاکستانی دانشور اورپی ایچ ڈی ری سرچ سکالر سید سبطین شاہ سے ایک ملاقات میں کیا۔ ملاقات میں سماجی شخصیت اور مدبرسلیم انور چوہدری بھی موجودتھے۔
انھوں نے کہاکہ وہ اب بھی قائداعظم ؒ کے رہنماء اصولوں پر کاربند ہیں کیونکہ یہی اتحاد، یقین محکم اور تنظیم ہے جس نے ان کی زندگی کو ہمیشہ کامیابی سے ہمکنارکیا۔ حاجی افضل خان جو ستر کی دہائی میں نارو ے آکر دارالحکومت اوسلو کے قریبی شہر موس میں آباد ہوگئے،اس شہرمیں اپنی سماجی خدمات کی بدولت بابائے موس کہلائے ۔ وہ پہلے غیرملکی پس منظر رکھنے والے فردہیں جواس شہر سے نوے کی دہائی میں کونسلرمنتخب ہوئے اورکئی سالوں سے اسی شہر سے وائس آف ناروے کے نام سے ریڈیوچلارہے ہیں۔ان کے فرزند خاقان خان اوردختر سونیاخا ن بھی کئی سالوں سے اسی شہرمیں کونسلرمنتخب ہوتے آرہے ہیں۔
سید سبطین شاہ نے بابائے موس کی خدمات اورپاکستان کے حوالے سے ان کی دلی خواہشات کو سراہااورکہاکہ غیور اورانسانیت کا جذبہ رکھنے والے لوگ آپ کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اپنے اصولوں پر کاربندرہنا ہی آپ کی کامیابی اورنیک خواہشات رکھناان کی تکمیل کے لیے امید پیداکرتی ہے۔لوگوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اس لیے آپ ہمیشہ سرخرو رہے اورآئندہ بھی سرخرورہیں گے۔ آپ جیسے لوگوں کے تدبراوردانش سے معاشرہ سنورسکتاہے۔ اس ملاقات میں بیگم حاجی افضل خان بھی موجود تھیں جو سترکی دہائی میں ایم ۔اے کرکے پاکستان سے آئی تھیں اورناروے میں بلامعاوضہ پاکستانی خواتین کی بھلائی کے لیے کا کام کرتی رہیں اورمسائل کے لیے حل کے لیے کوشاں رہیں۔
اس موقع پر بابائے موس نے کہاکہ اگرچہ وہ کافی عرصے سے ناروے میں مقیم ہیں لیکن ان کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتاہے۔ انھوں نے کہاکہ پاکستان کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور کبھی کبھی سوچتاہوں کہ کون پاکستان کے حالات ٹھیک کرے گا؟ علامہ اقبالؒ نے جوخواب دیکھا اور پھر قائداعظم نے ایک ملک بنایالیکن اب تک ہمارے لیڈرزاس ملک کو صحیح طرح سے سنبھال اورسنوار نہ سکے۔ پاکستان کو دیانتداری، خلوص اور ہوشیاری کے ساتھ سنوارا جاسکتاہے۔ اگر دل میں لگن اورخلوص ہوتو یہ ممکن ہے۔ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ہم سے آگے نکل گئے اور ہم وہیں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ اب تواس ملک کو ایک اور ناسور دہشت گردی اور انتہاپسندی کاسامناہے۔ اگر اس کا تدارک نہ کیاگیاتو یہ دیمک کی طرح معاشرے کو چاٹ جائے گا۔ بیماری کی تشخیص کے بغیر علاج کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
پہلے تشخیص کی جائے اور پھر علاج کیاجائے تو بیماری کو جڑ سے اکھاڑاجاسکتاہے۔ دہشت گردی کے علاوہ کرپشن بھی اس طرح کا ناسور ہے جو معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی کررہاہے۔ اوپر سے نیچے تک معاشرہ کرپٹ ہوچکاہے۔ اگرچہ تھوڑے بہت لوگ ایماندارہیں لیکن ان کی کوئی نہیں سنتایا پھر جان بوجھ کر انہیں غیرموثر کردیاجاتاہے۔دہشت گردی اورکرپشن دو ایسے عناصر ہیں جن کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کاری تو کیا، اب باہرممالک رہنے والے ہمارے بچے پاکستان جانے کے لیے تیارنہیں ہوتے۔ بابائے موس کو یہ اعزازحاصل ہے کہ انھوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو 1948 ء میں کوئٹہ کے سمنگلی ائرپورٹ پر اپنی آنکھوں سے دیکھاجب بابائے قوم زیارت جانے کے لیے بلوچستان آئے تھے۔ بابائے موس کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی عمر دس سال تھی۔
اس کے بعد ان کا خاندان راولپنڈی شفٹ ہوگیااور1951 ء میں جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیاگیاتو وہ اس وقت لیاقت باغ میں ایک درخت پر چڑھ کر ان کا جلسہ دیکھ رہے تھے۔ ناروے میں پاکستانیوں کی نئی نسل کے بارے میں بابائے موس نے کہاکہ ہمارے نئی نسل کا ملک ناروے ہے اور ان کا آبائی وطن پاکستان ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ناروے ہر لحاظ سے ایک محفوظ اور پرامن ملک رہے۔ ناروے نے انہیں بہت کچھ دیاہے اور ناروے کا تحفظ ان کا فرض ہے۔