اسلام آباد(یس اردو نیوز) چین خود کو اس وبا کے خلاف جنگ کا لیڈر سمجھتا ہے، حالانکہ کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے والا تنہا ملک نہیں ہے۔ تائیوان بھی اس کی ایک مثال ہے، جہاں اس وائرس کو بڑی کامیابی سے قابو کیا گیا۔
چین دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنے ملک میں کرونا وائرس پر قابو پا لیا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ وائرس چین سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گیا۔ چین نے کرونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے نگرانی کا کڑا نظام قائم کیا۔ یہاں تک کہ لوگوں کی نجی زندگی میں دخیل ہو گیا۔ اظہار پر اس حد تک پابندی لگا دی کہ حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیا۔
چین کا موقف ہے کہ یہ سخت گیر رویہ ضروری تھا جبکہ دوسرے ملکوں نے اس کے برخلاف کر کے دکھایا کہ دوسرے طریقے سے بھی اس کو روکا جا سکتا ہے۔
امریکی خبررساں ادارے کے نمائندے نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں معمول کی زندگی موقوٖف ہے۔ تاہم، چین سمیت کچھ ملکوں میں زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش جاری ہے۔ چین اس عالمگیر وبائی مرض کا منبع ہے، یہاں سے یہ مرض پوری دنیا میں پھیلا۔
صدر ٹرمپ نے ابتدا میں چین کی کوششوں کو سراہا مگر بعد میں جب امریکہ میں یہ بڑے پیمانے پر پھیلا تو امریکہ نے چین پر الزام عائد کیا کہ اس نے کرونا وائرس کے ماخذ اور دیگر اہم معلومات کو چھپایا۔ چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس وبائی مرض کے خلاف اپنی جنگ میں عالمی ادارہ صحت کو شامل کرنے کا اعلان کیا۔
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کا کہنا ہے کہ ہم کو اب تک اس مرض کے ابتدائی نمونے نہیں ملے، جن کی ہمیں ضرورت تھی۔ ہمیں اب تک رسائی حاصل نہیں ہوئی۔ پوری دنیا وہ نمونے نہیں دیکھ سکی۔ محض اتنا نہیں کہ انہوں نے بر وقت ایسا نہیں کیا بلکہ اب تک وہ رسائی فراہم نہیں کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس اہم معلومات کی ہمارے وبائی امراض کے ماہرین کو ضرورت تھی، تاکہ وہ اس کے بارے میں تحقیق کر سکیں، مگر یہ ممکن نہ ہو سکا۔
چین کا کہنا ہے کہ اس نے شفاف طور پر تعاون کیا، ہر چند کہ اس نے بین الاقوامی سائنس دانوں کو ووہان وائرالوجی لیب اور دوسرے اہم مقامات تک رسائی دینے سے انکار کر رکھا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت نے حقائق کو نظر انداز کیا اور عوامی توجہ ہٹانے کے لیے اس نے اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس رویے سے عالمی وبا کی روک تھام کے سلسلسے میں چینی عوام کی کامیابیوں کو چھپایا نہیں جا سکتا۔
چین خود کو اس وبا کے خلاف جنگ کا لیڈر سمجھتا ہے، حالانکہ کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے والا تنہا ملک نہیں ہے۔ تائیوان بھی اس کی ایک مثال جہاں اس وائرس کو بڑی کامیابی سے قابو کیا گیا۔
ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے ریٹائرڈ بریگیڈیر جنرل رابرٹ سپلینڈنگ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھیں کہ کس طرح انہوں نے اپنی آبادی کا خیال رکھا۔ انہیں ساری معلومات بہم پہنچائیں اور بڑی مستعدی سے ضروری اقدامات اٹھائے۔ تائیوان نے جس طرح کرونا وائرس کو کنٹرول کیا وہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔
تائیوان نے اپنی فضائی اور سمندری سرحدوں کو استعمال کیا، فوری طور پر نئے متاثرین کی شناخت کی اور دیگر لوگوں کو بر وقت آگاہ کیا۔ اپنے فنڈز اور فوجی اہل کاروں کی مدد سے ضروری طبی سامان تیار کیا۔
یہ درست ہے کہ چین نے بھی لاکھوں ٹسٹ کٹس اور حفاظتی سامان دوسرے ملکوں کو فراہم کیا، مگر بعض ملکوں کا کہنا ہے کہ اس میں نقص بھی نکلے۔ چین نے اپنی طرف سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ سی ایس آئی ایس کے بونی گلاسر نے وی اے او سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں دنیا کے ملک یہ نہیں بھولیں گے کہ چین نے اس وبا کے بحران سے غلط طور پر نمٹتے ہوئے کتنی بڑی غلطی کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے چین کی شہرت پر منفی اثر پڑا ہے۔
اب چین اور دنیا کے دوسرے ممالک کرونا وائرس کی ایک اور نئی لہر سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس کے لیے سبھی بھرپور کوششوں کا عزم رکھتے ہیں۔