نیشنل بُک فائونڈیشن کے پروگرام زوروں پر تھے۔ مجھے کچھ خواتین و حضرات دوستوں
نے آب پارہ اسلام آباد میں ایک مشاعرے کے لیے اغوا کرنے کا پروگرام بنایا اور مجھے وہاں لے چلے۔ میں نے بہت کہا کہ میں شاعر بازی کے خلاف ہوں۔ میں نے اب بیرون ملک بھی مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا ہے۔ میں کبھی کبھی اشعار کہہ لیتا ہوں مگر کسی کوسناتا نہیں ہوں۔ مشاعرے تو بالکل نہیں پڑھتا۔ مگر انہوں نے میری ایک نہ مانی۔ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مشاعرہ کس نے کروایا ہے۔
میں جونہی مشاعرے میں پہنچا تو مجھے سٹیج پر بلا لیا گیا۔ ورنہ میرا خیال تھا کہ موقعہ پا کے نکل جائوں گا ۔ایک اچھی بات یہ لگی کہ وہاں سٹیج پر پنڈی میں ایک پسندیدہ دوست اور نامور شاعر جلیل عالی بھی تھے۔ دوسرے تین چار لوگوں کو میں نہیں جانتا۔ میں تو کمپئیر کا نام بھی بھول گیا ہوں۔
سٹیج پر بیٹھے ہوئے کا دکھ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ سب شاعروں اور شاعرات کو سنتا ہے اور جب اس کی باری ہوتی ہے تو سامعین میں چند لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ مشاعرہ خوب تھا۔ ہر شاعر ایک ایک شعر دو تین مرتبہ پڑھ رہا تھا۔ اس کے باوجود مکرر مکرر کی آواز آ جاتی تھی اور شعرا کی تعداد سامعین سے زیادہ تھی۔ جو شاعر پڑھ لیتا وہ سینہ تان کر چلا جاتا۔
ایک خاتون شاعرہ کا شعر بہت پسند آیا۔ شعر کا پہلا مصرعہ تو مجھے بھول گیا ہے مگر اصل مزیدار دوسرا مصرعہ ہے۔ سماعت فرمائیے۔ مگر مکرر کہنے کی اجازت نہیں ہے۔ غالباً شاعرہ کا نام شازیہ اکبر ہے۔
ورنہ عشق دوبارہ کرنا پڑتا ہے
اس کے بعد میں اشعار پڑھے بغیر آ گیا کہ میں برادرم جلیل عالی کو نہ سن سکا۔ اس کا افسوس رہے گا۔ اُس نے میرے بعد پڑھنا تھا۔ ممتاز اور خوبصورت شاعرہ رفعت وحید نے فون کیا مگر وہ قومی کتاب میلہ کیوں نہ آئی تھی۔ وہ لاہور آئی تھی تو میرے گھر بھی تشریف لائی تھی میں اس کے گھر نہ جا سکا۔ معذرت خواہ ہوں، میں دوبارہ وعدہ نہیں کرتا۔ پھر بھول گیا تو کیا ہو گا۔
میں ٹیکسلا آ گیا۔ بتول بہن کی بہو عظمیٰ ایچ ایم سی کے گرلز سکول میں پڑھاتی ہے۔ عظمیٰ کے لیے ایچ ایم سی کے ایم ڈی جناب ظہیر شاہ سے ملا۔ وہ بڑی خوشگوار شخصیت کا سمارٹ سا آدمی ہے۔ اس کے بعد ہم بتول بہن کے پہلے ہمسایوں کے گھر گئے میں وہاں اس کے پاس گیا تھا تو ایک بہت اچھی سی بچی بھی ہمیں ملی۔ اس کا نام حُنسہ ہے۔ اس کا معنی پوچھا تو بچی نے بتایا کہ جنت کی حور ہے۔ اصل میں یہاں میں جنت کی حور دیکھنے کے لیے آیا تھا۔ اب وہ بڑی ہو گئی ہے۔ وہ اپنی بہنوں کے ساتھ بڑی یگانگت کے ساتھ ملی۔ میں نے سوچا کہ مرنے کے بعد تو نجانے جنت کی حور کو دیکھنے کا موقعہ ملے گا کہ نہیں ملے گا۔ ہم نے دنیا میں تو جنت کی حور دیکھ لی۔ پھر ہم عظمیٰ کے ابا کے کہنے پر ٹیکسلا سے کچھ دور ’’جھنگ باہتر‘‘ کے ایک شاندار فارم ہائوس میں گئے۔ اس طرح کی جگہ ہم نے لاہور کے گردو نواح میں بھی نہیں دیکھی۔ بزرگ دانشور ایس ایم ظفر کا فارم ہائوس ہمیں اچھا لگا تھا۔ مگر وہ بھی جناب وقار خاں صاحب کے فارم ہائوس کے مقابلے میں کچھ نہ تھا۔ مجھے اور میری اہلیہ کو یہ جگہ بہت پسند آئی۔ بتول اور عظمیٰ بھی ساتھ تھیں۔ ہم ڈاکٹر شمس سے بھی ملے۔ وہاں ٹیکسلا کا ایک شاعر بھی تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ٹیکسلا میں ادبی محفل کا اہتمام کرے۔ مگر میرے پاس وقت نہ تھا۔ دوسری بار آیا تو وہاں کے اہل قلم دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔
ایران کی مرضی ہے کہ ہم سعودی عرب کے اتنے قریب نہ ہو جائیں مگر وہاں ہمارا مکہ مدینہ ہے۔ سعودی عرب ہمارے حکمرانوں کی مدد بھی کرتا ہے۔ ایران تو بھارت کے زیادہ قریب ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ایران اور ترکی سے ہماری بہت دوستی تھی۔ مسلمان ملکوں میں پاکستان کے علاوہ کہتے ہیں کہ ایران کے پاس ایٹم بم ہے۔ ایران اب کچھ زیادہ ہی اس کمپلیکس میں مبتلا ہے کہ پاکستان عالم اسلام میں سب سے بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ وہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پاکستان کو عالم اسلام کا امریکہ کہتا ہے؟ جبکہ پاکستان کو اسرائیل اپنا مخالف نمبر ایک سمجھتا ہے۔ پاکستان نے تو اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔اسرائیل نے تو بھارت کے ساتھ گہرے اور خطرناک مراسم رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور بھارت نے مل کر پاکستان پر حملے کی کوشش بھی کی۔ جب پاکستان کو علم ہو گیا تو یہ ارادہ بھی پسپا ہوا۔ اسرائیل مسلمان ملکوں میں سے صرف پاکستان سے ڈرتا ہے۔