آپ پہلے چین کی مثال لیجیے۔
پانامہ اس وقت شریف فیملی کے فلیٹس اور آف شور کمپنیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ یہ لیکس نہ ہوتیں اور اگر ان لیکس میں شریف فیملی کا نام نہ آتا تو شاید پاکستان کے ننانوے فیصد لوگ آج بھی پانامہ کے نام سے واقف نہ ہوتے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ملک دنیا کے70 غیر معروف ملکوں میں شامل ہے‘ یہ 70 ملک دنیا کے نقشے میں موجود ہیں لیکن لوگ ان ملکوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے‘ پانامہ اپنی لیکس سے قبل ایک نہر کی وجہ سے امریکا میں مشہور تھا‘ یہ نہر انسانی ہاتھوں کی صناعی ہے‘ یہ پانامہ کینال کہلاتی ہے اور یہ بحیرہ اوقیانوس کو بحرالکاہل سے ملاتی ہے‘ یہ کینال 102سال پانامہ کا تعارف رہی‘ یہ نہ ہوتی تو شاید امریکی بھی پانامہ کے وجود سے ناواقف ہوتے‘ آپ خود غور کیجیے لاطینی امریکا کے انتہائی آخرمیں واقع چھوٹا سا ملک جس کی آبادی فقط 40 لاکھ ہو اور جہاں تمباکو اور کافی کے سوا کچھ نہ اگتا ہو دنیا کے سات ارب لوگوں کو اس میں کیا دلچسپی ہو گی چنانچہ یہ ملک سیکڑوں سال ناقابل توجہ رہا لیکن یہ پانامہ 2006-07ء میں چین میں بہت مشہور ہوا‘ چینی میڈیا روز پانامہ کے حوالے سے خبریں دیتا تھا۔
آپ وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے‘ پانامہ میں 2006ء میں دوسو کے قریب لوگوں نے کھانسی کی ایک دواء استعمال کی اور ان میں سے 40 لوگ ہلاک ہو گئے‘ حکومت نے تحقیقات کیں‘ پتہ چلا یہ دواء چین سے درآمد ہوئی تھی اور یہ مضر صحت تھی‘ حکومت نے چین کے سفیر کو طلب کر لیا‘ سفیر نے اپنی حکومت کو ای میل کر دی‘ چینی حکومت نے تفتیش شروع کی‘ ایک ہفتے میں صورتحال کھل کر سامنے آ گئی‘ معلوم ہوا چین کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی میں ژینگ ژیانو نام کا ایک ڈائریکٹر تھا‘ یہ شخص کرپٹ تھا‘ اس نے 8 ادویات ساز کمپنیوں سے ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر رشوت لی اور دو درجن ادویات کی منظوری دے دی‘ یہ دواء بھی ان ادویات میں شامل تھی‘ژینگ ژیانو اس وقت تک ریٹائر ہو چکا تھا‘پولیس نے چھاپہ مارا اور اسے گرفتار کر لیا‘ مزید تحقیقات ہوئیں تو مزید انکشاف ہوا کاؤ زین زونگ نام کا ایک اور ڈائریکٹر بھی اس مکروہ دھندے میں شامل تھا‘ وہ بھی غیر معیاری ادویات کی منظوری دیتا رہا‘ حکومت نے اسے بھی گرفتار کر لیا‘ یہ ملزمان دو ہفتوں میں مجرم ثابت ہو گئے۔
حکومت نے کیس عدالت میں پیش کر دیا‘ عدالت نے مئی 2007ء میں ژینگ اور جولائی 2007ء میں کاؤ کو سزائے موت دے دی‘ ژینگ نے سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی‘ ژینگ کا کہنا تھا ’’میں اپنا جرم تسلیم کرتا ہوں لیکن میری وجہ سے کوئی چینی شہری ہلاک نہیں ہوا‘ میرے خلاف کوئی چینی مدعی بھی موجود نہیں لہٰذا میرے جرم کے مقابلے میں میری سزا زیادہ ہے‘ میرے ساتھ رعایت کی جائے‘‘ عدالت نے دو ہفتے میں اس کی اپیل نبٹا دی‘ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ’’یہ شخص نہ صرف انسانی جانوں کا قاتل ہے بلکہ اس کی وجہ سے پوری دنیا میں چین کی بدنامی بھی ہوئی چنانچہ یہ درندہ صفت انسان رعایت کے قابل نہیں‘‘ حکومت نے اپیل مسترد ہونے کے بعد ژینگ کو 10 جولائی 2007ء کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جب کہ دوسرے ملزم کاؤ کو بھی چند ہفتے بعد دوسری دنیا بھجوا دیا گیا‘ یہ کیس جتنا عرصہ چلتا رہا چینی میڈیا روز پانامہ‘ ادویات اور فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹرز کی خبریں شایع کرتا رہا یوں پانامہ چین میں خاصا مقبول ہو گیا‘ آپ اس کیس کا کمال دیکھئے‘ یہ دونوں حضرات اگر پانامہ کے شہری ہوتے تو انھیں وہاں سزائے موت نہ ہوتی‘ یہ زیادہ سے زیادہ دس برس کے لیے جیل بھجوا دیے جاتے یا پھر ان کی جائیداد ضبط کر لی جاتی لیکن چین نے دس ہزار کلو میٹر دور ایک دوسرے ملک میں ادویات کے استعمال سے مرنے والے لوگوں کے بدلے اپنے دو ریٹائر افسروں کو سزائے موت دے دی‘ کیوں؟ کیونکہ چین سمجھتا تھا یہ لوگ ملک کی بدنامی کا باعث بنے ہیں۔
آپ اب پاکستان کی مثال لیجیے۔
لاہور ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے‘ میو ہاسپٹل اس شہر کا قدیم ترین اسپتال ہے‘ 13 جنوری کو انکشاف ہوا میو اسپتال میں دل کے مریضوں کو جعلی اسٹنٹ ڈالے جاتے ہیں‘ یہ انکشاف ایف آئی اے کی ایک ٹیم نے کیا‘ ایف آئی اے کا ایک صحت مند اسسٹنٹ ڈائریکٹر مریض بن کر اسپتال گیا‘ امراض قلب کے شعبے نے معائنہ کیا اور اسے دل کا مریض ڈکلیئر کر دیا۔ ’’مریض‘‘ کو اسٹنٹ ڈلوانے کا مشورہ دیا گیا‘ اسسٹنٹ ڈائریکٹر میو ہاسپٹل سے پرائیویٹ کلینک گیا‘ کلینک کی مشینوں نے اسے مکمل صحت مند قرار دے دیا‘ ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کر دیں‘ پتہ چلا اسپتال میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کا ایک گینگ کام کررہا ہے‘ گینگ میں پروفیسر بھی شامل ہیں‘ یہ لوگ مریضوں کو جعلی اسٹنٹ لگاتے ہیں‘ اسپتال کو ایک کمپنی جعلی اور غیر معیاری اسٹنٹ فراہم کرتی ہے‘ یہ اسٹنٹ چھ ہزار روپے مالیت کے ہوتے ہیں لیکن مریض سے دو لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
پروفیسروں نے اسٹنٹ فراہم کرنے والی کمپنی کو اسپتال میں باقاعدہ کمرہ دے رکھا ہے‘ ایف آئی اے نے اس کمرے پر چھاپہ مارا اور چار کروڑ روپے مالیت کے اسٹنٹ برآمد کر لیے‘ ان سٹنٹس پر کسی کمپنی کا نام چھپا تھا اور نہ ہی ایکسپائری ڈیٹ درج تھی‘ یہ دھندہ برسوں سے جاری تھا ‘ یہ لوگ ہزاروں مریضوں کو جعلی اور غیر معیاری اسٹنٹ لگا چکے تھے‘ ایف آئی اے کو معلوم ہوا یہ جعل ساز صحت مند لوگوں کو بھی مریض ڈکلیئر کر کے انھیں اسٹنٹ لگا دیتے ہیں اور وہ بے چارہ صحت مند شخص پوری زندگی دل کی ادویات استعمال کرتا رہتا ہے‘ پتہ چلا یہ سلسلہ صرف ایک اسپتال تک محدود نہیں بلکہ ملک میں ایسے درجنوں اسپتال موجود ہیں جہاں برسوں سے یہ دھندہ جاری ہے‘ یہ ایک مثال تھی‘ آپ اگر تھوڑی سی گہرائی میں جا کر دیکھیں تو آپ کو پاکستان کے اکثر اسپتال سلاٹر ہاؤس اور ڈاکٹر قصائی نظر آئیں گے‘ آپ کسی دن دوبئی چلے جائیں۔
آپ وہاں اپنا میڈیکل ٹیسٹ کرائیں اور اس کے بعد پاکستانی اسپتالوں اور لیبارٹریوں میں چلے جائیں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے آپ کو دل کا ڈاکٹر دل‘ آنکھ کا ڈاکٹر آنکھ‘ گردے کا ڈاکٹر گردے‘ جگر کا ڈاکٹر جگر اور دماغ کا ڈاکٹر دماغی مریض قرار دے دے گا‘ یہ لوگ آپ کو لاکھ دو لاکھ روپے کا نسخہ بھی لکھ دیں گے‘ آپ کسی دن پاکستانی لیبارٹریز کی رپورٹس کا تجزیہ بھی کر لیں‘ آپ اگر مریض ہیں تو یہ لیبارٹریاں آپ کو صحت مند اور آپ اگر صحت مند ہیں تو یہ آپ کو مریض قرار دے دیں گی‘ آپ کو یہ فرق ادویات کے معیار میں بھی ملے گا‘ میں انسولین استعمال کرتا ہوں‘ میں دس سال سے فرانس سے انسو لین لا رہا ہوں‘ میں نے تین ماہ قبل پاکستانی انسولین شروع کی‘ آپ یقین کیجیے میری شوگر آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی‘ میں نے دوبارہ فرانس سے انسولین منگوائی‘ استعمال کی اور میری شوگر کنٹرول میں آ گئی۔
فرانس اور پاکستان دونوں میں انسولین ایک ہی کمپنی فراہم کرتی ہے لیکن معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ آپ کو یہ فرق ڈسپرین میں بھی ملے گا‘ آپ امپورٹڈ ڈسپرین استعمال کریں اور اس کے بعد پاکستانی ڈسپرین کھائیں آپ کو فرق جاننے میں چند منٹ لگیں گے‘ آپ کو یہ فرق خوراک میں بھی ملے گا‘ پاکستان میں بچوں کو اب ماں کا دودھ بھی خالص نہیں ملتا‘ صابن بنانے والی فیکٹریاں یورپ سے استعمال شدہ گھی اور کوکنگ آئل منگواتی ہیں‘ یہ آئل استعمال کے قابل نہیں ہوتا لیکن یہ لوگ یہ آئل پکوڑے سموسے تلنے‘ بسکٹ کیک بنانے اور مٹھائیاں تیار کرنے والوں کو فروخت کر دیتے ہیں اور یہ لوگ یہ آئل ہمارے معدوں میں انڈیل دیتے ہیں۔
دودھ میں کیا کیا ملاوٹ ہوتی ہے اور چائے کی پتی اور پانی میں کیا کیا ہو رہا ہے‘ یہ اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی‘ ہم کتنے بدنصیب لوگ ہیں‘ ہم خوراک کے درندوں سے بچ جاتے ہیں تو ہم ڈاکٹروں کے قابو آ جاتے ہیں اور یہ ظالم چھ ہزار روپے کا اسٹنٹ دو لاکھ روپے میں ہماری نسوں میں ٹھونک دیتے ہیں لیکن حکومت نوٹس لینے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی‘ ان کی دوڑ ’’ہم مجرموں کو قرار واقعی سزا دیں گے‘‘ تک محدود رہتی ہے۔میری حکومت سے درخواست ہے آپ خوراک اور ادویات کے معاملے پر خوفناک اتھارٹی بنا دیں‘ آپ اتھارٹی کو وسیع اختیارات دیں‘ کڑی سزائیں طے کریں اور ملک میں جو بھی شخص خوراک اور ادویات میں ملاوٹ کا مرتکب پایا جائے‘ یہ مریض کو جعلی اسٹنٹ لگائے یا یہ غلط رپورٹ جاری کرے اسے عبرت ناک سزا دی جائے‘ اسے خوفناک مثال بنا دیا جائے۔
آپ یقین کیجیے چین نے اب تک ژینگ ژیانو اور کاؤ زین زونگ جیسے صرف دس لوگوں کو سزائے موت دی‘ چین میں اس کے بعد کسی نے دواء اور خوراک میں ملاوٹ کی جرأت نہیں کی‘ چین میں 2007ء کے بعد اب تک کسی اہلکار نے غلط دواء بھی رجسٹر نہیں کی‘ ہم بھی اگر اپنے لوگوں کو صحت مند دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی کبھی نہ کبھی یہ کرنا ہوگا ورنہ دوسری صورت میں لوگ خوراک سے مرتے رہیں گے یا پھر ڈاکٹروں کے ہاتھوں ذبح ہوتے رہیں گے۔