دین اور اِس سے جُڑی تمام حکایات، علامات، اشیاء، رسم و رواج، طور طریقے اور لوگ کسی بھی معاشرے کی اکائی تصور ہوتے ہیں۔ معاشرے، تہذیب و تمدن اور ثفاقت کا دین سے دامن اور چولی کا ساتھ ہے۔ یہ ابد سے چلا آرہا ہے اور ازل تک رہے گا۔ کبھی دین ثقافت کا دھارا موڑ دیتا ہے تو کبھی ثقافت دین کے آڑے آجاتی ہے اور گاہے بہ گاہے یہ دونوں یونہی ساتھ ساتھ کسی شخص، قوم، ادارے یا معاشرے کی تعمیر کرتے چلے جاتے ہیں۔
دینی رویہ اور دین سے رویہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، دینی رویہ سے مراد ہمارا طرزِ عمل ہے دین کے فرائض پر، مثلاً ہم نماز کیسے پڑھتے ہیں، روزہ کیسے رکھتے ہیں، داڑھی کے بارے میں کیا خیال ہے، شرعی پردہ کے بارے میں کیا سوچ ہے، حلال و حرام وغیرہ وغیرہ۔
دین سے رویہ سے مراد ہمارا برتاؤ، دین سے متعلق تمام چیزوں اور لوگوں سے کیسا ہے؟ ہمارے معاشرے میں سینکڑوں ایسے لوگ ملتے ہیں جن کا دینی رویہ تو قدرے بہتر ہوتا ہے مگر دین سے رویہ نہایت بُرا۔ چلیں میں مثال سے سمجھاتا ہوں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو مسجد کے سامنے تھوکنے، ہارن بجانے، گاڑی میں چلتے میوزک کی آواز کو کم کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں؟ کتنے ہیں جو مسجد کی صفائی کا اپنے گھر کی صفائی جتنا ہی خیال رکھتے ہیں؟ آخر مسجد اُسی اللہ کا گھر ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں۔ یہ انداز ہمارا ہر جگہ ہے، قربانی کی بڑی تیاری مگر قربانی کے جانور کی درگت بناتے رہتے ہیں۔ قرآن سے بڑی محبت مگر اُس کو پڑھنے والے مدرسے کے بچے جاہل کہلائیں؟ اور سب سے زیادہ شامت بے چارے مولویوں کی آتی ہے۔
دنیا سے لاتعلق، جاہل، بد تمیز، مُلا، اور پتا نہیں کیا کیا القابات اور جملے ہم نے نکال رکھے ہیں، اُن کی جان جلانے کو۔ جتنے طعنے ہمارے معاشرے میں مولوی سنتے ہیں، اتنے تو چور اُچکے اور ایسے ویسے کام کرنے والے بھی نہیں سنتے۔ مگر شاباش ہے ان کی ہمت کو کہ آپ سے گالیاں بھی کھاتے ہیں اور آپ کے نکاح بھی پڑھاتے ہیں، جنازے بھی پڑھاتے ہیں اور آپ کے بچوں کو قرآن و نماز بھی یہی سکھاتے ہیں۔ اگر یہ اتنے ہی بُرے ہیں تو اپنے باپ دادا کی لاش لے جا کر کسی مشہور صحافی یا گلوکار سے جنازہ کیوں نہیں پڑھوا لیتے؟ پھر یہ بیک ورڈ مولوی ہی کیوں یاد آتے ہیں؟
دین کی نسبت والوں کے ساتھ یہ انتقامی رویہ میں نے کسی اور ملک میں نہیں دیکھا۔ امریکہ میں (ننز) پردہ کرتی ہیں، مگر آج تک انہیں دقیانوسی ہونے کا طعنہ نہیں ملا۔ پادریوں کو کوئی گالم گلوچ نہیں کرتا۔ حکومت بھی بھرپور ساتھ دیتی ہے، یہودی بھی اپنے علماء کو اپنے معاشرے کی اساس سمجھتے ہیں اور آنکھ بند کرکے مالی و اخلاقی مدد کرتے ہیں۔ یہاں سری لنکا میں تو بدھسٹ مونکس کی بڑی ہی عزت ہے۔ ہر چودھویں کی رات کو ’پویا‘ کی چھٹی ہوتی ہے، جس میں یہ لوگ شام کو اپنی مذہبی عبادت گاہوں میں جاکر اپنی مقدس کتاب ’گاتا‘ جس میں لارڈ بدھا کی باتیں لکھی ہیں، وہ پڑھتے ہیں اور اُس دن گھروں میں گوشت نہیں پکاتے۔ اب سال کی 12 چھٹیاں تو یہ ہوگئیں مگر یہاں تو کوئی دین کے نام پر اپنا ایجنڈا پیش نہیں کرتا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمارے معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ یہی مدرسے کے بچے اور اساتذہ ہیں۔
زکوۃ (جو کہ مال کا میل ہوتا ہے) اِس سے پل بڑھ کر جوان ہونے والے اور اب تو وہ بھی حرام کے مال کی زکوۃ، اس پر بھی اگر وہ اپنا وجود بر قرار رکھتے ہیں اور دین کی طرف بلاتے ہیں تو سلام ہے ان کی عظمت کو، آپ ایک دن مدرسے میں لنگر کا کھانا نہیں کھا سکتے۔
اس کے باوجود وہ پیسہ جوڑ جوڑ کر ادارے پر ادارے بناتے چلے گئے، حرام کا ہی سہی، جو آپ نے دیا انہوں نے وہ لگا دیا۔ آپ لوگوں نے اپنے حلال سے کون سا تیر مار لیا؟ کتنے ادارے، اسکول اور تربیت گاہیں بنالیں؟ آج بھی آپ کو 2 سو روپے کے جوڑے میں کوئی مولوی مل جایئگا جس نے کچھ کروڑ کا ادارہ بنایا ہوگا، ہمیں بڑی مشکل پیش آئے گی ایسی کسی مثال کو اپنی زندگی میں ڈھونڈنے میں۔
خدارا! تنقید برائے تنقید کا دھندہ بند کریں، کسی دینی شخص کے ساتھ کچھ دن گزار لیں۔ اچھے بُرے ہر جگہ ہوتے ہیں، آپ اپنی رائے بدلنے پر ضرور مجبور ہوجائیں گے۔ خدا نے اگر پوچھ لیا کہ میرے دین سے منسلک ہر ہر شے سے اتنی نفرت رکھنے کے بعد میرے پاس کیا لینے آئے ہو تو کیا جواب دو گے؟
میں بھی سوچ رہا ہوں آپ بھی سوچئے!
نوٹ:یس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔