برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے سوال پر ہوئے ریفرنڈم اور حالیہ امریکی انتخابات کے حیران کن نتائج نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ بڑے شہروں میں بیٹھے صحافی اور دانشور عوام کی اکثریت میں موجود غصے اور تعصبات سے قطعاََ بیگانہ ہوچکے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز جیسے اخبار امریکہ بھر میں لاکھوں افراد تک پہنچتے ہیں۔ سی این این جیسے ٹی وی نیٹ ورک بھی کیبل کی بدولت گھر گھر موجود ہیں۔قارئین وسامعین کی بے پناہ تعداد تک رسائی نے صحافیوں کو اس زعم میں مبتلا کردیا کہ وہ رائے عامہ’’بناتے‘‘ ہیں،اسے محض رپورٹ نہیں کرتے۔ ٹرمپ کی کامیابی نے ان کے زعم کو پٹخ کر منہ کے بل گرادیا ہے۔ اپنے تجزیوں کے برعکس نتائج آنے کے بعد دیانت دارانہ سوچ کے حامل ذہن خود سے سوالات کئے جارہے ہیں، جن کے مناسب اور بھرپور جوابات ابھی تک مل نہیں پائے ہیں۔
میری ناقص رائے میں شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ٹی وی سکرینوں پر براجمان ہوئے ہمارے اینکر خواتین وحضرات کو بھی 2013ء کے انتخابی نتائج اور 2014ء کے دھرنے کے بعد اپنے رویے پر نظرثانی کی شدید ضرورت تھی۔ ایسا مگر ہو نہیں پایا۔ یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت چند مخصوص موضوعات پر معلومات نہیں بھاشن نما تقاریر سننا چاہتی ہے۔ ان موضوعات تک محدود رہتے ہوئے ہم خود کو دہرائے چلے جاتے ہیں۔
راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط کی دانشورانہ فیاضی کی بدولت ہم طے کر بیٹھے تھے کہ 2016ء نواز حکومت کا آخری سال ہو گا۔ ’’ذرائع‘‘ کی مہربانیوں نے ہمیں تھینک یو راحیل شریف کا عادی بنایا۔ ان کی ممکنہ ’’دیدہ وری‘‘ کے لئے تیار کیا۔ دیدہ وری کے امکانات کمزور نظر آنا شروع ہوئے تو ہم نے اپنے تئیں نئے ’’کمانداروں‘‘ کا تعین بھی کرڈالا۔ یہ تعیناتیاں نہ ہوپائیں تو فرض کرلیا گیا کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے جسٹس جمالی صاحب پانامہ سکینڈل کے حوالے سے کوئی ’’دلیرانہ‘‘ فیصلہ دے کر ’’تاریخ‘‘ بنائیں گے۔ ’’تاریخ‘‘ مگر بن نہیں پائی۔ ہم شرمندہ ہونے کے بجائے غصے سے بھرے بیٹھے ہیں۔سمجھ نہیں آرہی کہ اب سکرینوں پر کیا چورن بیچیں۔ خاص طورپر اس وقت جبکہ عمران خان صاحب نے بھی ’’چوروں اور لٹیروں پر مشتمل‘‘ پارلیمان میں واپس جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ہاتھ میں ریموٹ پکڑ کر اس کے بٹن دباتے چلے جائیں تو آپ کو یہ ’’اطلاع‘‘ہرگز نہیں ملے گی کہ خیبرپختونخون خواہ کے جنوبی علاقوں سے کھاریاں تک پھیلے بارانی پاکستان میں جہاں نہری پانی میسر نہیں اس برس وقت پر بارشیں نہیں ہوئیں۔ قحط سالی کے اس موسم میں گندم کی بروقت بوائی ہوتو گئی مگر اس پر پھل نہیں لگ پایا۔ اپنی ضرورت کے مطابق گندم پیدا کرنے کے لئے بارانی علاقوں کا کسان زمین کے چند مخصوص ٹکڑے استعمال کرتا ہے۔ بقیہ زمین پر وہ موسم کی سبزیاں اُگاتا ہے۔ اسے بروقت کاٹ کر روزانہ کی بنیاد پر منڈی میں پہنچاکر نقدرقم حاصل کرتا اور اپنا گھر چلاتا ہے۔ اس بار اس کی لگائی گوبھی،شلجم،گاجر اور مٹر وغیرہ بروقت بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بارآور نہیں ہوپائیں۔پریشانی کے عالم میں وہ دن کے وقت آسمان کو دیکھتا بادلوں کو ڈھونڈتا رہتا ہے۔ اس کی راتیں اداس اور پریشان ہوچکی ہیں۔
ہم میں سے کتنے لوگوں کو علم ہے کہ بارانی علاقوں میں کتنے لوگ رہتے ہیں؟۔ یہ پاکستان کی 20کروڑ تک پہنچی آبادی کا کم از کم ایک چوتھائی ضرور ہیں۔ آبادی کے اتنے بڑے حصے کے گھروں میں بھی ٹی وی پہنچ چکے ہیں۔’’قوم کی سوچ اور جذبات‘‘ کے نمائندے بنے اینکرخواتین وحضرات اور ایان علی کی ہراقدام پر کڑی نگاہ رکھتے ہمہ وقت مستعد رپورٹروں کو میں نے مگر کبھی اس خشک سالی اور اس کے عواقب کا تذکرہ کرتے نہیں سنا۔
جانے کیوں اور کیسے، مگر یہ طے کرلیا گیا ہے کہ خشک سالی کا ذکر اور اس کے عواقب سکرین پر ’’بکتے‘‘ نہیں ہیں۔ ریٹنگ نہیں آتی۔ ریٹنگ نہ ہوں تو ٹی وی نیٹ ورک کو اشتہار نہیں ملتے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان کی کل آبادی کے کم از کم ایک چوتھائی گھروں میں موجود بارانی علاقوں میں ان دنوں مسلط خشک سالی اور اس کے عواقب کا ذکر ہو تو لوگ اسے کیوں نہیں دیکھنا چاہیں گے۔
متاثرہ آبادی کے لئے تو یہ زندگی یا موت جیسا سنگین سوال ہے۔ اس آبادی کے روزمرہّ سے کٹ کر بڑے شہروں میں مقیم لوگ بھی اپنے گھروں میں بیٹھے یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ ہم اپنے ازلی دشمن بھارت سے تمام تر نفرت کے باوجود ٹماٹر منگوانے پر کیوں مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ روزمرہّ کے حقائق ہیں۔ ان حقائق کا تعلق عام اور متوسط گھروں کے روزانہ بجٹ سے بہت ٹھوس اور گہرا ہے۔ ہم ان حقائق کا ذکر کئے بغیر ریٹنگ حاصل کرنے کے دعوے دار ہیں اور خود کو خوش گمانیوں میں مبتلا رکھے ہوئے۔
اپنی تعمیر کردہ دنیا کے جس گنبد میں ہم صحافی محصور ہوچکے ہیں، وہاں بالآخر وہ مقام آنے ہی والا ہے جہاں اپنی آواز ہم خود ہی سن کر محظوظ ہوتے رہیں گے۔دیوانوں کی طرح خود سے باتیں کرنے کی عادت میں مبتلا ہونے کے لئے ہمیںاب فقط چند اور روزدرکار ہیں۔
اس وقت کے آنے سے پہلے ضروری ہوچکا ہے کہ ہم بیدار ہوں۔اپنے دائیں بائیں دیکھیں۔ دو گھنٹے سے کچھ منٹ کم کی ڈرائیورنگ کے بعد آپ اسلام آباد سے چکوال پہنچ جاتے ہیں۔ چکوال سے ڈولمیال نامی قصبہ تقریباََ 37کلومیٹر دور ہے۔ آپ کو کسی ٹی وی چینل نے لیکن ہرگز یہ اطلاع نہیں دی تھی کہ ربیع الاول کے مبارک مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی کلرکہار کی پہاڑیوں اور دامنوں میں واقع مساجد کے لائوڈ سپیکروں کے ذریعے عوام کو کیسے اشتعال بھرے پیغامات دئیے جارہے تھے۔
دُنیا بھر کے لئے رحمت بناکر بھیجے ہمارے نبی پاکﷺ کی ولادت کے روز کئی دنوں سے برپا اس اشتعال انگیزی نے بالآخر اپنا اثر دکھا دیا۔ ہماری اکثریت نے اس واقعے کو ’’احتیاطاً محتاط ترین الفاظ میں بھی رپورٹ تک نہیں کیا۔
سوشل میڈیا کی بدولت اس واقعے کو مگر دنیا بھر میں ٹھوس تناظر بیان کئے بغیر اچھالا گیا۔ صرف ایک قصبے میں ہوئے ایک واقعے نے جو یقینا پریشان کن تھا ہمارے اجتماعی تصویر کو بُری طرح مسخ کیا ہے
ہمیں یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ ’’تخت لاہور‘‘ میں نظر آتی تمام تر رنگینیوں اور آنیاں جانیاں کے باوجود ’’گڈگورننس‘‘ کے بوجھ تلے ہانپتے جی ٹی روڈ سے کٹے قصبات میں فرقہ واریت جنون کی صورت پھیل رہی ہے۔ اس جنونیت کو مگر ہمارا ہر وقت باخبر ہونے کا دعوے دار اور مستعد میڈیا دیکھنے کو تیار نہیں ہورہا۔ ٹھوس حقائق سے ایسی لاتعلقی مجھے شاذہی دیکھنے کو ملی ہے جو میرے پیشے کے بنیادی تقاضوں کے محض منافی ہی نہیں، دوررس حوالوں سے مجرمانہ بھی ہے۔