اسلامی لشکروں کی فتح کی ہوشرباء داستانیں ہم نے کتابوں میں پڑھی ہیں اور ان پر آج تک شادماں رہتے ہیں اور ان فتوحات کی مثالیں ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ان کے بغیر اسلامی تاریخ نامکمل لگتی ہے۔ پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے جماندرو اتحادی امریکا سے یہ گلہ کیا ہے کہ ’’پاکستان کے کردار کو امریکا اور افغانستان کی جانب سے داغدار کیا جا رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہماری قربانیوں کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے اور یہ کوئی اور نہیں کر رہا بلکہ ہمارے اتحادی ہی کر رہے ہیں یہ کوئی محض اتفاق نہیں ‘‘۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگر اس خطے میں کسی ملک کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ پاکستان ہے جس کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس عالمی جنگ میں گھسیٹا گیا اور ہم نے اپنے ہمسایہ اور برادر ملک افغانستان میں امریکا کی جنگ لڑی جس کا ناقابل تلافی نقصان ہم آج بھی بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک بھگتتے رہیں گے کہ ہم اب اس سے اپنے آپ کو کسی صورت میں الگ نہیں کر سکتے کہ جنگ اب سے نہیں کئی دہائیوں سے لڑی جا رہی ہے اور اس کے خاتمے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ امریکا پر حملوں سے چند سال پہلے میر ے محترم اور روحانی شخصیت قبلہ سرفراز شاہ صاحب نے میری درخواست پر پاکستان کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ایک گفتگو میں مجھے بتایا تھا کہ وہ پاکستان کے شمالی طرف کے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے گروہ دیکھ رہے ہیں جن کی وجہ سے بہت خون بہے گا لیکن پاکستان کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آئے گی اور وہ پاکستان کی ترقی دیکھ رہے ہیں ۔ میں نے ان کی یہ بات پلے باندھ لی اور قوم کو ہمیشہ اپنی تحریروں کے ذریعے مثبت پیغام دیا اور اچھے دنوں کی آس دلائی ۔ محترم قبلہ سرفراز شاہ صاحب کی یہ پیشن گوئی چند سال بعد پوری ہوگئی اور دنیا نے دیکھا شمالی علاقوں میں امریکا بہادر کی جانب سے خون کی ندیاں بہا دی گئیں اور پاکستان کو بھی پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی دھمکی سے اس میں زبردستی شامل کر دیا گیا جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔
ہمارے سپہ سالار کا گلہ بجا ہے کہ ہم نے امریکا کی مسلط کی ہوئی جنگ میں اپنا زبردست نقصان کیا اور ہمارے شمالی علاقوں کے رہنے والے ہمارے پختون بھائی ہم سے ناراض ہوگئے جو کہ ہمیشہ ہمارے دفاع پر کمر بستہ رہتے تھے ۔پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی امریکا کے منصوبہ سازوں کی یہ سوچی سمجھی سازش ہے جو کہ وقت کے ساتھ سامنے آرہی ہے اور ہمارے ہزاروں پاکستانیوں شہریوں اور مسلح افواج کے جوانوں اور افسروں کی شہادت کو بھی قبول نہیں کیا جا رہا ہے اور ہم پر ہمارے ہی اتحادیوں کی جانب سے الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے کہ ہم دہشت گردی کی اس جنگ میں بھر پور تعاون نہیں کر رہے ہیں۔
آئے روز ملک کے کسی نہ کسی حصے میں بم دھماکے ہمارا مقدر بن چکے ہیں جن میں ہمارے بے گناہ اور معصوم شہریوں کا خون ناحق بہایا جا رہا ہے یہ سب اسی مسلط کی گئی جنگ کا شناخسانہ ہے جس کو ہم چار و ناچار بھگت رہے ہیں اور دہشت گردی کے اس ناسور کو شکست دینے کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے شہریوں کی لاشیں اٹھانے پر مجبور ہیں ۔ ہماری افواج اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے وطن کو محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ شر پسند عناصر اپنے بیرونی آقاؤں کی شہ پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ناپاک سازش میں ان کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں اوریہ بیرونی طاقتیں ہم سے ڈھکی چھپی نہیں اور ان کا سرغنہ ہمارا ہمسایہ ہندوستان ہے جو کوئی ایسا موقع نہیں جانے دیتا جس سے پاکستان میں خلفشار برپا کیا جا سکے اور اب ہندوستان ہمارے ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان جس کے لاکھوں باشندوں کی ہم پچھلے کئی دہائیوں سے مہمان نوازی کر رہے ہیں کو پاکستان کے خلاف بھڑکا کر استعمال کرنے کی کوشش کر رہاہے تا کہ پاکستان کو چاروں طرف سے گھیر کر ملک میں انارکی پھیلائی جاسکے۔
دشمن ہندوستان کی یہ مذموم کوششیں وقتی طور پر تو پاکستان کی داخلی سلامتی میں گڑ بڑ پیدا کر سکتی ہیں لیکن ہماری بہادر افواج اپنے سینوں پر شہداء کے تمغے سجائے ہندوستان کی ان ناپاک کوششوں کا جوانمردی سے مقابلہ کر رہی ہیں اور اس کے پاکستان دشمن ارادوں کو ہر محاذ پر شکست سے دوچار کر رہی ہیں کیونکہ افواج پاکستان نے اسلام کے نام پر بنائے گئے اس ملک کی حفاظت کی قسم کھائی ہے اور ہماری اسلامی فوج اسلامی بم کے ساتھ دشمن کے واروں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر دم تیار ہے۔ لیکن کیا ہم دوستوں کا امتحان لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ افغانی عوام ہمارے دوست ہیں۔