ہمارا مینڈیٹ واضح ”الزام تراشی کا کھیل نہیں کھیلیں گے” نگراں وفاقی وزیر اطلاعات علی ظفر
اسلام آباد: (اصغر علی مبارک) نگراں وفاقی وزیر اطلاعات علی ظفرنے کہا ہے کہ ہمارا مینڈیٹ واضح ہے کہ ہم الزام تراشی کا کھیل نہیں کھیلیں گے، جو حقائق ہیں وہ سب کے سامنے پیش کریں گے اور آئندہ حکومت کے لیے گائیڈ لائن بھی دیں گے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران نگراں وزیر اطلاعات علی ظفر کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، ہم ملک میں شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی ) کی مدد کریں گے۔لوڈشیڈنگ کے معاملے پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 28 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن فنی خرابی کے باعث بجلی کی پیداوار نہیں ہورہی۔انہوں نے کہا کہ لوڈشیڈنگ کی 4 وجوہات ہیں، جن میں پہلی وجہ طلب اور رسد کا فرق ہے, دوسری وجہ پانی کی قلت ہے، تیسری وجہ ترسیل کے نظام میں خرابی ہے جبکہ چوتھی وجہ بجلی چوری والے علاقوں میں حکومتی پالیسی کے تحت لوڈ شیڈنگ ہونا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ڈیمز میں پانی کی مقدار پوری ہو اور پلانٹس بھی درست کام کر رہے ہوں تو ملک میں بجلی بنانے کی صلاحیت 28 ہزار میگا واٹ تک ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تمام چیزیں ایک وقت میں درست ہوں۔نگراں وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ اس وقت جو صلاحیت موجود ہے اس کے مطابق 21 سے 22 ہزار میگا واٹ تک بجلی کی پیداوار ہورہی ہے جبکہ اس کی طلب 23 سے 24 ہزار میگا واٹ ہے لیکن صرف 2 ہزار میگا واٹ کے فرق میں اتنی زیادہ لوڈشیڈنگ نہیں ہونی چاہیے۔ نگراں وفاقی وزیر اطلاعات علی ظفر نے کہا کہ نگراں حکومت کے آنے کے بعد اچانک زیادہ لوڈشیڈنگ کی کئی وجوہات تھیں، جن میں ڈیمز میں پانی کی کمی پہلی وجہ تھی، جس کے باعث ہائیڈل پیداوار صرف 3 ہزار میگاواٹ ہوگئی تھی جو گزشتہ برس کے مقابلے میں نصف تھی۔
نگراں وفاقی وزیر اطلاعات علی ظفر کا کہنا تھا کہ اضافی لوڈشیڈنگ کی دوسری وجہ پورٹ قاسم کے 2 حصوں میں فنی خرابی تھی، جس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں کمی ہوئی۔نگراں وفاقی وزیر اطلاعات علی ظفرنے کہا کہ جہاں پیداواری صلاحیت بڑھائی گئی ہے وہاں ترسیل اور تقسیم کا نظام بہتر نہیں کیا گیا، اس کے علاوہ ہم نے 40 برس میں کوئی نیا ڈیم تعمیر نہیں کیا جبکہ ہمارا آبپاشی کا نظام بھی 100 سالہ پرانا ہے اور ہم نے کبھی پانی اور بجلی کے ذخائر پر کام نہیں کیا۔اس موقع پر نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں کافی عرصے سے قیمتوں کے حوالے سے ایک نظام رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تبدیلی ایک فارمولے اور نظام کے تحت ہوتی ہے جبکہ کچھ آرڈیننس ہیں جو اسے گورننس کرتے ہیں۔شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ ہماری پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بین الاقوامی خلیجی مارکیٹوں سے منسلک ہوتی ہیں، لہٰذا اس میں رد و بدل ایک حقیقت ہے، جسے دیکھتے ہوئے اس میں تبدیلی کرنا پڑتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مئی میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ خلیجی مارکیٹوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا لیکن گزشتہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ 7 جون تک اس کی قیمتیں برقرار رکھی جائیں جبکہ اس میں تبدیلی یا اضافے کا فیصلہ نگراں حکومت کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔نگراں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے معاملے پر ہماری حکومت نے اجلاس بلایا اور ماہ رمضان کی وجہ سے قیمتوں میں رد و بدل میں تاخیر کی کوشش کی گئی لیکن عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے اضافے کے باعث صرف 50 فیصد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بڑھایا گیا۔انہوں نے کہا کہ مقامی مارکیٹ کی قیمتیں عالمی مارکیٹ سے کم رکھنا اس وقت کافی مشکل ہے کیونکہ اس سے حکومت کو کافی مالی نقصان ہوتا ہے، تاہم اس کے باوجود بھی پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دنیا کے دیگر ممالک سے کافی کم ہیں۔ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ بھارت میں اس وقت پیٹرول کی قیمت فی لیٹر 140، ڈیزل 126 روپے سے زائد ہے جبکہ پاکستان میں پیٹرول 91 اور ڈیزل 105 روپے سے زائد فی لیٹر ہے۔انٹرنیشل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف ) کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم کوئی بھی نئے معاہدے یا بڑے پیمانے پر مذاکرات نہیں کرسکتے لیکن یہ ضروری ہے کہ میکرو اکنامک فریم ورک پر توجہ دیں اور اس کے چیلنجز کا سامنا کریں۔انہوں نے کہا کہ ملک کی اقتصادی صورتحال سب کے سامنے ہے لیکن ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے رسمی مذاکرات اور معاہدے میں شامل ہوں۔