سنا ہے کہ اچھے پڑوسی اللہ کی نعمت ہیں،لیکن یہ بات شاید ہمارے پڑوسیوں نے نہیں سنی۔ ہم نہیں کہتے کہ ہمارے پڑوسی اچھے نہیں ہیں۔ صرف آپ کے سامنے ایک نقشا سا کھینچتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارے پڑوسی کیسے ہیں۔
سب سے پہلے مزرا صاحب کو لیجئے۔ یہ حضرت ریڈیو بجانے کے بہت شوقین ہیں، بلکہ یوں لگتا ہے کہ مار کونی صاحب کو ریڈیو ایجاد کرنے کا خیال مرزا صاحب کے ذوق وشوش کودیکھ کر ہی آیا تھا۔ جھوٹ نہ بلوائے تو چوبیس گھنٹوں میں سے کوئی بائیس گھنٹے ان کا ریڈیو بجتا ہے بلکہ چیختا ہے اور پورے زوروشور سے چیختا ہے۔ ان کو غالباََ ریڈیو کی آواز کم کرنے کا طریقہ نہیں معلوم ، اسی لیے تمام محلے والوں نے اپنے اپنے ریڈیوبیچ کر روئی کے بنڈل خرید لیے ہیں اور روئی نکال نکال کر کانوں میں ٹھونستے رہتے ہیں۔ ان کے ریڈیو پر دنیا بھر کے دور دراز کے ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہونے والے پروگرام پورا محلہ (روئی ٹھونسنے کے باوجود ) آسانی سے سن لیتا ہے۔ البتہ قریب کھڑے ہوئے آدمی کی آواز نہیں سنائی دیتی ۔
قریشی صاحب بھی کچھ اسی قسم کا شوق رکھتے ہیں۔ انہیں موسیقی سے بہت لگاؤ ہے۔ لیکن فرصت انہیں آدھی رات کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے، اس لیے یہ ٹھیک اسی وقت ستار، بارمونیم اور طبلہ بجانا شروع کرتے ہیں جب مرزاصاحب کا ریڈویو بند ہوتا ہے۔ اس طح ہمارے محلے میں چوبیس گھنٹے بجلی، پانی اور گیس کی سہولت کے ساتھ موسیقی بھی جوبیس گھنٹے دستیاب ہے۔
محلے میں آدمی رات کو رونق میں مزیداضافہ اس وقت ہوجاتا ہے۔ جب جمالی صاحب کے دوستوں کی محفل جمتی ہے۔ اس محفل میں کوب خوب قہقہے لگائے جاتے ہیں اور وہ ادھم مچاہے کہ توبہ ہی بھلی، کبھی کبھی ان کے دوستوں میں سے وکئی صاحب تانیں بھی اڑاتے ہیں۔ اس سارے ہنگامہ باؤ سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ محلے میں رات بھر کوئی چور پاس بھٹک نہیں سکتا۔
اس سارے شور شرابے پر جلالی صاحب البتہ بہت خفا ہوتے ہیں۔ جلالی صاحب کئی سال یورپ میں رہ چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ یورپ کے کسی شہر میں یہ سارا شور وغل ہوتو فوراََ پولیس آجائے اور ان بدتمیزوں کو پکڑکرلے جائے۔ ان کاکہنا ہے کہ یورپ میں لوگ رات دس بجے بعد سیڑھیاں بھی دبے قدموں چڑھتے اترتے ہیں تاکہ گھروں میں سوئے ہوئے لوگوں کی نیند خراب نہ ہولیکن اس کا کیا علاج کہ ابھی جلال صاحب کی موٹر سائیکل میں سائلنسر یعنی شور کم کرنے والا آلہ نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حضرت جب موٹر سائیکل پر سوار ہوکرآتے جاتے ہیں تو پھٹ پھٹ کا ایک ایسا کان پھاڑدینے والا شور سنائی دیتا ہے کہ قبر میں پڑے مردے بھی سن لیں تو ہڑبڑا کراٹھ بیٹھیں یاکم ازکم کروٹ تو ضرور لیں۔ ہمارے جی چاہتا ہے کہ ان سے پوچھیں کہ اگر ایسی موٹر سائیکل یورپ کے کسی شہر میں چلائی جائے تو کہا ہو۔ کیا وہاں پولیس ایسے بدتمیزوں کو انعام دیتی ہے ۔
نازک صاحب بھی مزے کے آدمی ہیں۔ انہیں جانور پالنے کا شوق ہے۔ ان کے گھر کے باہر ایک بکرا دو بھینسیں اور ایک ہرن بندھارہتا ہے۔ گھر کے صحن میں مور اور بطخیں ہیں ا ور گھر میں کسی جگہ طوطے، چڑیاں، بلبلیں اور نہ جانے کون کون سے پرندے پال رکھے ہیں۔ غرض گھر کیا ہے اچھا خاصا چڑیا گھر ہے۔ نازک صاحب ان تمام حیوانات کی غلاظت اور اپنے گھر کا کوڑا بڑی پابندی سے روزانہ گھر سے باہر سڑک پر پھینکتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ شہر میں گندگی بڑھتی جارہی ہے، لوگ صفائی کا خیال نہیں کرتے ، وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ایک اور پڑوسی طفیلی صاحب کی عادت ہے کہ وہ اکثر چیزیں ادھار مانگتے ہیں۔ مثلاََ استری، اخبار جھاڑو، برتن ، کتابیں ، تھوڑی سی چائے کی پتی، ذراسا آٹا، صرف ایک انڈا، معمولی سانمک ، چٹکی بھر کالی مرچیں، وغیرہ اور بے چارے اکثر واپس کرنا بھول جاتے ہیں ۔ ایک دفعہ وہ ہماری بجلی کی استری کئی دن تک استعمال کرتے رہے اور ہم بڑی مشکل سے مانگ کر واپس لائے تو اگلے دن موجود ہوئے کہا ہماری استری واپس کیجئے۔ خاصی مغزمارے کے بعد انہیں یاد آیا کہ وہ استرن ان کی نہیں اصل میں ہماری تھی اور کافی عرصے سے ان کے گھر میں رہنے کی وجہ سے انہیں اپنی لگنے لگی تھی ۔
ہمارے پڑوسیوں کی فہرست خاصی لمبی ہے اور ان سب کی دلچسپ عادتیں بیان کی جائیں تو دفتر کے دفتر بھر جائیں لیکن ہم یہ سوچ کر اس مضمون کو ختم کیے دیتے ہیں کہ آخر ہم بھی تو کسی کے پڑوسی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان کو بھی ہم سے کچھ شکایتیں ہوں۔ اگرچہ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی پڑوسی کو ہماری وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہوں، کیوں کہ حضوراکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ جس شخص کی شرارتوں سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں وہ مومن نہیں۔
نونہال دوستو! امید ہے کہ آپ وہ سب نہیں کرتے ہوں گے جو ہمارے پڑوسی کرتے ہیں ۔