اگرچہ اسلام آباد میں ’’جگتو فرنٹ‘‘ کا اجلاس ہوا ہے مگر آج مجھے سیاست سے ہٹ کر لکھنا ہے۔ مجھے اسامہ قمر کی یاد رہ رہ کے آرہی ہے، یہ گیارہواں روزہ تھا، جمعہ کی شام تھی، کسی نے آکر مجھے بتایا ’’لالہ موسیٰ میں حادثہ ہوا ہے، قمر زمان کائرہ کا بیٹا جاں بحق ہو گیا ہے۔‘‘ بس پھر دکھ نازل ہوا، فضا لمحوں میں سوگوار ہوتی چلی گئی۔ اگلے چند منٹوں میں ایسے وڈیو کلپس بھی آگئے جنہیں دیکھنے کے لئے اشکوں کا دریا بھی چاہئے تھا، کسی نے مجھے وہ کلپ بھی بھیج دیا جس میں باپ کو وہ خبر دی جاتی ہے جو انسان کو بے بسی کی تصویر بنادیتی ہے۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ قمر زمان کائرہ کے لئے اسلام آباد سے لالہ موسیٰ کا سفر کتنا طویل ہوگیا ہوگا مگر مجھے یہ تو احساس ہے کہ یہ سفر کس قدر تکلیف دہ ہوگا۔ اسامہ کی زندگی کے کتنے مناظر یاد کی صورت میں اشکوں سے بہہ گئے ہوں گے۔ قمر زمان کائرہ وہ لمحہ زندگی بھر نہیں بھول پائے گا جس میں اُس کا جوان بیٹا ’’ہے سے تھا‘‘، ہست سے بود ہوگیا۔
مجھے وہ نوجوان نہیں بھول رہا، ابھی کل کی بات ہے جب ندیم اصغر کائرہ نے اسلام آباد اور مری کے درمیان پہاڑی چوٹی پر گھر بنایا پھر دعوت کا اہتمام کیا، پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت وہاں آئی۔ یہیں میری اسامہ سے ملاقات ہوئی، وہ اپنے کزنوں کے ساتھ بڑا خوش تھا، ندیم اصغر کائرہ اُن سب بچوں کو ملوانے کے لئے لایا، سب نے اپنی بات بتائی، اسامہ نے گورنمنٹ کالج لاہور کا بتایا۔ ہماری بھی عجیب کمزوری ہے جب ہمیں کوئی گورنمنٹ کالج لاہور کا بتاتا ہے تو ہماری محبت ڈبل ہو جاتی ہے، سو اسامہ سے اسی دن محبت ڈبل ہوگئی تھی۔ اب وہ سارے مناظر یاد آرہے ہیں، میرے کلاس فیلو نعمان بیگ کا بیٹا بہاول اور اسامہ قمر گورنمنٹ کالج لاہور میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ ہوسٹل فیلو تھے، نعمان بیگ نے چند اور کلپس بھیج دئیے، جمعہ کی شام سے لے کر اب تک میرے سارے لمحات زخمی ہیں۔
ابھی چند ہفتے پہلے تو میں لالہ موسیٰ کے قریب ایک گائوں شاہ سرمست گیا تھا، جاوید چوہدری کے والد انتقال کر گئے تھے مگر اِس مرتبہ میرے لئے زیادہ تکلیف دہ لمحہ تھا، آج اُسی اسامہ کو سپرد خاک کرنا تھا جو بہت خوشگوار ماحول میں ملا تھا۔ خوشیوں کو غم میں بدل دینے والی کیفیت نمناک ہوتی ہے، لفظ آنسوئوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔
خواتین و حضرات! میں لالہ موسیٰ گیا ہوں، جنازے کے بعد واپس آگیا ہوں، میں وہاں رک نہیں سکا، میں اپنے دوست چوہدری شریف کو دیکھ کر بھی اُس سے نہ مل سکا۔ لالہ موسیٰ میں نہ رکنے کی بڑی وجہ بھی اسامہ ہی ہے۔ میں وہاں رک جاتا مگر قمر زمان کائرہ کو کون دیکھتا، اس کی آنکھوں میں تو سارے منظر اسامہ کے تھے۔ ویسے بھی دکھوں کی دھرتی پر زیادہ لمحے نہیں گزارے جاسکتے۔
آپ سب جانتے ہیں کہ اسامہ کی موت حادثے کے باعث ہوئی، کریم پور کا حمزہ بٹ بھی ساتھ ہی چلا گیا۔ حادثاتی موت شہادت کا درجہ رکھتی ہے، ہم مسلمان ہیں، ہمارے نزدیک شہادت بہت افضل ہے، رمضان المبارک میں تو ویسے بھی کسی کی موت ہوجائے تو وہ درجات کی افضلیت کو چھوتی ہے۔ ہمارا ایمان ہے، موت کا ایک دن معین ہے، ہمارا یقین ہے جو بھی اس دنیا میں آیا ہے، اسے جانا ہی ہے، ہمارے نزدیک زندگی امانت ہے، خدا جب چاہتا ہے اپنی امانت واپس لے لیتا ہے، ایسا ہی اسامہ کے ساتھ ہوا۔ اسامہ چلا گیا مگر وہ معاشرے کے لئے چند سوال چھوڑ گیا ہے۔ ہماری گاڑیوں کے ائیربیگ کیوں نہیں کھلتے، پورا معاشرہ گاڑیاں بنانے والے مافیا کے سامنے کیوں بےبس ہے۔ ہم ڈرائیونگ کی تربیت کیوں نہیں لیتے، ہمارے ہاں پولیس چالان کے لئے تو آگے ہوجاتی ہے مگر موٹر سائیکلوں، رکشوں اور ٹرکوں کو فاسٹ ٹریک پر جانے سے کیوں نہیں روکتی۔ ہمارے ہاں ٹریفک حادثات کی وجوہات تلاش کرنے کی کیوں کوشش نہیں ہوتی، سیٹ بیلٹ باندھنے کا رواج کیوں نہیں ہے اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم اپنے کم عمر بچوں کے حوالے گاڑیاں اور موٹرسائیکل کیوں کردیتے ہیں، کیا ہمارے معاشرے میں والدین ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں؟
خواتین و حضرات! کائرہ ایک گائوں کا نام ہے، یہ گائوں لالہ موسیٰ سے جڑا ہوا ہے۔ اس کی پہلی شہرت حاجی اصغر کائرہ سے ہوئی اور پھر قمر زمان نے اس نام میں جان ڈال دی۔ اسامہ اس گائوں کا ایک ابھرتا ہوا چراغ تھا، جسے تیز آندھی اور حادثے نے بجھا دیا ہے۔ اسامہ اس دور میں اگلے جہاں گیا ہے جس دور میں جھوٹ بولنا لوگوں کا شیوہ ہے، عہد شکنی عادت ہے، لوگ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور کم تولنے کے بعد رمضان کا آخری عشرہ مقدس مقامات پر گزارتے ہیں۔ اس عہد میں ہر طرف منافقت کا راج ہے، لوگ دکھاوے کے لئے خیرات کرتے ہیں، سادگی کو جرم سمجھتے ہیں، دولت کی پوجا کرتے ہیں۔ اسامہ! تو نے اچھا کیا، تو اپنے خدا کے پاس جلدی چلا گیا۔ دکھ ہے مگر صبر ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، لالہ موسیٰ کی سوگوار فضا میں قمر زمان کائرہ کا چند جملے ادا کرنا بہت کچھ کہہ گیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’بہت بڑا دکھ ہے، جوان اولاد کا جنازہ اٹھانا کتنا مشکل ہوتا ہے، کل اِس کا احساس ہوا، بہرحال وہ اللہ کا انعام تھے، اتنے ہی دن ہمارے پاس رہنے کے لئے آئے تھے، اللہ کی طرف لوٹ گئے، الحمد للہ، اللہ اُن کی منزلیں آسان کرے، ہمیں صبر دے۔ ہمارے یہ بیٹے تو نہیں لوٹیں گے لیکن آپ کے آنے سے ہمارا دکھ، ہمارا غم یقیناً کم ہوا۔ اولاد کے جانے کا غم زندگی بھر ساتھ رہے گا کیونکہ یہ اللہ کی رضا ہے، الحمد للہ، واقعی زندگی بڑی کمزور ہے، سنتے ہیں لیکن یقین نہیں آتا، زندگی کے لالچ بڑے ہیں، ایک لمحے سے بھی کم وقت میں زندگی کتنی تبدیل ہوسکتی ہے اِس کا احساس مجھے پرسوں ہوا‘‘۔
جوان اولاد کا دکھ واقعی کاہش جاں ہوتا ہے، مجھے تو سید عارف کاشعر بہت یاد آرہا ہے کہ؎
جس کو اٹھارہ برس گود میں رکھا جائے
کتنا مشکل ہے اسے گور کے اندر رکھنا