امریکا سے اچھی اور خوش کن خبریں کم ہی آتی ہیں مگر کبھی کبھار اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا امریکا سے بھی ایسی خبر آجاتی ہے جو وقتی طور پر امریکا کی بربریت کو بھلا دیتی ہے حالانکہ امریکا سے اچھی خبروں کا آنا ایک معجزہ ہی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ امریکی معاشرہ تضادات سے بھرا ہوا ہے جہاں پر کوئی کسی کا نہیں ہر ایک کو بس اپنی ذات کی ہی فکر ہے اور وہ اپنے آپ میں ہی گم رہنا پسند کرتا ہے۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امریکا کے صدر ٹرمپ جو کہ دل پھینک اور رنگین مزاج واقع ہوئے ہیں ان کی ایک سابقہ اہلیہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں ازراہِ مذاق یہ کہہ دیا کہ چونکہ وہ ٹرمپ کی پہلی بیوی تھیں اس لیے انھیں ہی خاتون اول کا خطاب ملنا چاہیے اس پر صدر ٹرمپ کی تاحال موجودہ اہلیہ نے بہت برا منایا اور کہا کہ یہ سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش ہے اور وہ اب اس دوڑ سے باہر ہوچکی ہیں کیونکہ امریکی معاشرے میں ایک وقت میں ایک ہی بیوی رکھی جا سکتی ہے اس دوران کسی دوسری عورت سے خفیہ تعلقات تو قائم کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کو بہت برا سمجھا جاتا ہے آپ کو یاد ہو گا کہ امریکا کے ایک سابق صدر کلنٹن کے وائٹ ہاؤس کی ایک ملازمہ مونیکا لیونسکی کے ساتھ تعلقات کا بہت شہرہ رہا لیکن کلنٹن کی بیوی ہیلری نے عقلمندی کا ثبوت دیا اور اپنا خاتون اول کا اعزاز برقرار رکھا اور بعد میں امریکی صدراتی الیکشن بھی لڑا چونکہ وہ جانتی تھیں کہ اگر انھوں نے اپنے شوہر کی اس واردات کو سنجیدگی سے لیا تو کچھ معلوم نہیں کہ یہ بیل منڈھے ہی چڑھ جائے اور وہ وائٹ ہاؤس سے باہر چلی جائیں۔
خاتون اول کی اصطلاح جس نے بھی ایجاد کی بڑی زبردست ذہنی اختراع تھی کہ اس سے بہت سارے ایسے مسائل کا حل نکل آتا ہے جو کہ آپ براہ راست مرد اول سے نہیں نکال سکتے اور ان کاموں کے لیے خاتون اول کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی خواتین اول کا کردار نہایت اہم رہا جب کہ ہمارے بعض حکمران تو اس کے بارے میں اتنے مشہور رہے کہ اپنی جرنیلی کو بھی خاتون سے منسوب کیے رکھا۔
پاکستان کے قیام کے بعد چونکہ ہمارے قائد محمد علی جناح کی اہلیہ سے علیحدگی ہو چکی تھی اس لیے خاتون اول کا خطاب کسی کو حاصل نہ ہوسکا مگر ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح جو کہ تحریک پاکستان میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں انھوں نے قیام پاکستان کے بعد بھی اپنا بھر پور سیاسی کردار جاری رکھا اور مادر ملت کا خطاب پایالیکن ہم نے ان کے ساتھ بھی وفا نہ کی اور جب ان کو الیکشن میں کھڑا کیا گیا تو ان کو بھی ہرا دیا گیا حالانکہ اس وقت تک پاکستان میں ان سے معزز خاتون کوئی اور نہ تھی کہ انھوں نے ہمیں ایک نیا اور آزاد ملک دینے میں اپنا سب کچھ مسلمانوں پر نچھاور کر دیا تھا۔
پاکستانی سیاست میں سیاستدانوں کی بیویوں نے بھر پور کردار ادا کیا اور ثابت کیا کہ وہ سیاسی میدان میں مردوں سے کسی طور پیچھے نہیں۔ ستر سالوں میں آدھی عمر تو مارشل لاؤں میں گزر گئی جس کے دوران خاتون اول کا کردار مارشل لاء کی نظر ہو گیا لیکن جب بھی سیاستدانوں کو موقع ملا ان کی بیگمات نے اپنا کردار بھر پور اور کامیابی سے ادا کیا۔ سیاست میں محترمہ فاطمہ جناح کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی ایرانی نژاد بیوی بیگم نصرت بھٹو نے اپنے شوہر کے دور اقتدار میں ہی سیاست میں دلچسپی لینی شروع کر دی اور مجھے یاد ہے کہ بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب اسلامی ملکوں کا طوفانی دورہ کیا تووہ اس دورے کے دوران تہران بھی گئے۔
جہاں پر ائر پورٹ پر بیگم بھٹو کو وہ سرکاری پروٹوکول نہیں دیا گیا جو کہ بطور خاتون اول ان کا استحقاق تھا شاید اس میں ان کے ایرانی نژاد ہونے کی کچھ وجوہات تھیں اس دورے سے واپسی پر میں نے ایک احتجاجی کالم بھی لکھا تھا۔ نصرت بھٹو کے سیاسی جوہر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد کھل کر سامنے آئے انھوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور ایک عورت ہوتے ہوئے مردانہ وار سیاسی میدان میں مقابلہ کیا انھوں نے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو بھی اپنے والد کی سیاسی جانشین کے طور پر سامنے آئیں اور جس طرح انھوں نے پاکستانی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا جو تاریخ میں لکھا اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ وہ خاتون اول تو نہیں رہیں لیکن پاکستان کی تاریخ کے تاریخی مرد اول کی بیوی ضرور تھیں اور انھوں نے مرداول کے ساتھ اپنے شوہر بیوی والے رشتے کو خوب نبھایا ان کے سامنے اگر مرد اول کی کوئی برائی کی جاتی تو وہ ناراض ہو جاتیں بلکہ محفل سے ہی اٹھ کر چلی جاتی تھیںجو کہ ان کا محترم آصف زرداری سے محبت کا اظہار تھا اور وہ ان کے خلاف کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں ہوتی تھیں۔
پاکستانی سیاست میں اگر موثر اور بھرپور کردار کسی نے ادا کیا ہے تو وہ بھٹو خاندان کی یہی دو خواتین تھیں ان کے بعد کسی حد تک ہمارے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ محترمہ بیگم کلثوم نواز نے مشکل وقت میں نہ صرف مسلم لیگ نون کی قیادت سنبھالی بلکہ مارشل لاء کے دوران ان کی سیاسی جدوجہد نے ان کی پارٹی سیاست کو زندہ رکھا اور انھوں نے نواز شریف کی اسیری کے دوران مسلسل سیاسی جدو جہدجاری رکھی جس کی وجہ سے ملک کے اس وقت کے مطلق العنان حکمران سے اپنے شوہر کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ ان کو مکھن کے بال کی طرح نکال کر سعودی عرب لے گئیں۔
بیگم کلثوم نواز نے سیاسی میدان میں پہلوانوں کی طرح مخالفین کا مقابلہ کیا نواز شریف کی عدم موجودگی میں پارٹی کو حوصلہ دیا اور قائم رکھا اب ایک بار پھر وہ سیاسی میدان میںہیں گو کہ خاتون اول کے لقب سے محروم ہو چکی ہیں لیکن پارٹی کو ضرورت کے وقت نظر انتخاب انھی پر ٹھہری ہے اور لاہور کے الیکشن میں کامیابی ان کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اللہ ان کو صحت کے ساتھ وطن واپس لائے اور وہ سیاست میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ پاکستانی سیاست کی بیگمات نے اپنے آپ کو سیاست کا اہل بھی ثابت کیا اور سیاسی ضرورت بھی یہ سیاسی خواتین سیاست میں زندہ رہیں گی اور آنے والے سیاسی خواتین کے لیے مشعل راہ بھی۔