خبر ہے کہ اتحادی کھڑے ہو گئے ہیں، کھڑا ہونے کی کتنی قیمت لیں گے، کتنے میں سودا ہو گا اور کیسے ہو گا۔ اتحادی کب تک کھڑے رہیں گے۔ یہ کھڑے رہیں گے یا اس سے اگلے گیئر میں بھی جا سکتے ہیں یعنی ڈٹ جانے کا موقع تو نہیں آئے گا۔ یہ ہے وہ جمہوریت جسے پیٹا جاتا تھا، جس کے لیے دہائیاں دی جاتی ہیں۔ یہ ہے وہ طرز حکومت ہے جس کے لیے جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں۔ عوام کو سڑکوں پر لایا جاتا ہے۔ انہیں ڈنڈے کھانا پڑتے ہیں اور طاقتور طبقہ اپنا الو سدھا کر کے کسی اور جانب نکل جاتا ہے۔
اسی حکومت کو دیکھ لیں ہر وقت اتحادیوں کے جانے کا خوف منڈلاتا رہتا ہے۔ ہر وقت دباؤ میں رہتے ہیں۔ کبھی مسلم لیگ قائد اعظم کے جانے خطرہ ہے تو کبھی متحدہ قومی موومنٹ کے ناراض ہونے کا ڈر ہے، کبھی اختر مینگل کے الگ ہونے کا خطرہ ہے۔ ان حالات حکومت خاک ہو گی۔ جب ہر وقت کوئی نہ کوئی ناراض ہوتا رہے اور ہر وقت ساتھیوں کو منانے کا کام ہوتا رہے ایسی صورتحال میں کام خاک ہو گا۔
پاکستان کی سیاست بھی کیا عجب منظر دکھاتی ہے۔یہاں انسانوں کے بھاؤ لگتے ہیں۔ کبھی جمہوریت کے نام پر تو کبھی مفاہمت کے نام پر، کبھی قومی سلامتی کے نام پر تو کبھی مذہب کے نام پر۔ انسانوں کے بھاؤ تاؤ ہمیں خوب آتے ہیں۔ کسی اور کام میں ماہر ہوئے ہیں یا نہیں اس کام میں ہم ماہر پلس ہو چکے ہیں۔ ایسا بکتے ہیں کہ خریدار بھی حیران و پریشاں ہو جاتا ہے۔ خریدنے والا بکنے والوں کو بیوقوف بنا رہا ہوتا ہے تو بکنے والوں کی نظر میں خریداروں سے بڑھا بدھو دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ انسانوں کی منڈی میں ہر دوسرے کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہے۔ کہنے کو یہ ہمارے رہنما ہیں حال یہ ہے ملک کو بیرونی طور بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کو یہ آنکھ نہیں بھاتا وہ ہر وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اندرونی مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے، مہنگائی ہے، غربت ہے، بیروزگاری ہے، کرپشن ہے، لاقانونیت ہے، دہشت گردی ہے، اداروں کی تباہی سمیت کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا سامنا نہ ہو۔ ان مسائل کی موجودگی میں بھی سیاست دانوں کو اپنے اپنے پیٹ کی پڑی ہے۔ ہر کسی کو اپنی جیب کی فکر ہے۔ ہر کسی کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ کیا مسائل ختم ہوں گے اور خاک تعمیری کام ہو گا۔
حکومت کو اتحادیوں کی فکر ہے تو اتحادیوں کو اپنے عہدوں کی، حکومت کو اپنے نالائق وزراء کی بے وقوفیاں سانس نہیں لینے دیتیں وہ عوام کے مسائل پر خاک توجہ دے۔ یہ ہے وہ جمہوریت جس کے لیے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ طرز حکومت جس کے لیے عوام کو قربانی دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ عوام کس کے لیے اپنی گردن پیش کریں۔ اس کرپٹ، ناکارہ، ناکام نظام کے لیے یا پھر ان مفاد پرست حکمرانوں کے لیے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی عوام کی زندگی کو مشکل تر کیے جا رہے ہیں۔
کیا یہ اتحادی کھڑے رہیں گے یا پھر اپنا اپنا ریٹ بڑھائیں گے۔ اپنے اپنے حلقے کے عوام کے ووٹوں کا سودا کریں گے۔ اپنے سیاسی قائدین کو چاہنے والے عوام خود اپنے سیاسی استادوں کی قلابازیاں دیکھ رہے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ وقت آنے پر وہ انہیں ہی منتخب کریں گے۔ انہی سیاسی کھلاڑیوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی طاقت دیں گے۔
ان دنوں تمام اتحادی جماعتیں ناراض ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کا ساتھ دینے والوں نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ انہوں نے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا ہے۔ ان کا حکومت سے الگ ہونے کا دل نہیں کرتا۔ وہ حکومت کے ساتھ بھی رہنا چاہتے ہیں اور انقلابی بھی بننا چاہتے ہیں۔ عوامی سطح پر اپنا سیاسی مستقبل بھی بچانا چاہتے ہیں اور حکومت کے مزے سے بھی محروم نہیں ہونا چاہتے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی تہیہ کر رکھا ہے کہ اس نے سیاسی روایات کا قتل عام کرنا ہے۔ اپنے اتحادیوں کی چیخیں نکلوانی ہیں۔ انہیں اہمیت نہیں دینی۔ اتحادیوں کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کرنے، معاہدوں کی پاسداری نہیں کرنی، سیاسی حلقوں کی تذلیل کرنی ہے۔ منتخب نمائندوں کو جوتے کی نوک پر رکھنا ہے۔ انہیں چیخنے چلانے پر مجبور کرنا ہے۔ انہیں مشاورت میں شامل نہیں کرنا اور ہر وہ کام کرنا ہے جو سیاسی روایات اور جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ بار بار توجہ دلاو نوٹس اور بار بار یاد دہانی کے حکومت نے کسی کی بات نہیں سننی ان حالات میں کیسے گڈ گورننس قائم ہو سکتی ہے۔ کیسے اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے اور کیسے اسمبلیاں عوامی فلاح کی قانون سازی اور بہتر منصوبہ بندی کر سکتی ہیں۔ وہ وقت جو مسائل ختم کرنے میں خرچ ہونا چاہیے وہ روٹھنے منانے میں خرچ ہوتا ہے اور عوام اپنے من پسندوں کی آنیاں جانیاں دیکھ کر اپنا سر پیٹ رہے ہیں۔
حکومت کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنا طرز عمل بدلے۔ سیاسی روایات اور جمہوریت کی روح کے مطابق نظام کو چلائے۔ پنجاب میں بالخصوص عوام حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں ۔ پنجاب کا ووٹرز عمران خان کے نظریے کے ساتھ تھا۔ کیا آج عمران خان بھی اپنے نظریے پر کھڑے ہیں یا نہیں۔ تحریک انصاف کے حامی اپنی حقیقی جماعت کو ڈھونڈ رہے ہیں انہیں ہر روز ایک نئی اذیت کا سامنا ہوتا ہے۔ نوجوانوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ کیا وزیراعظم پاکستان کو اسکا ادراک ہے۔ اتحادیوں کا اتحاد قائم رکھنے کے لیے نوجوانوں کے خوابوں کا خون تو نہ کریں۔
بشکریہ :نوائے وقت اکرم چوہدری