تحریر : ساجد حسین شاہ
کچھ عرصہ قبل میں لاہور میں تھا جہاں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے میری جیب سے موٹر سائیکل کے کاغذات کہیں گر گئے اپنے دوست کو ساتھ لیا جسکا ایک جاننے والا اے۔ ایس۔ آئی خوش قسمتی سے ہمارے ہی علاقے میں تعینات تھا اور متعلقہ تھانے پہنچا تا کہ کاغذات کی گمشدگی کی رپورٹ درج کر وا سکوںاے۔ایس۔آئی ہمیں محرر کے پاس لے گیا اور اسے کہا انکی رپورٹ درج کردو محرر صاحب جو بڑی مشکل سے کرسی میں فکس ہوئے ہوں گے مجھ سے یکے بعد دیگرے سوالات پوچھتے گئے کب ،کہاں،کیسے وغیرہ وغیرہ میں سوالوں کا جواب دیتا رہااور ساتھ بڑی حیرانگی سے کرسی کا معائنہ کر رہا تھا کہ یہ شخص کرسی میں داخل کیسے ہوا ہوگا اور جب اٹھے گا تو یقینا کرسی اسکے ساتھ چسپاں ہو گی بحر حال میں نے اپنی رپورٹ درج کروائی اوروہاں سے چلتا بنا۔اتفاقا اگلے ہی دن میرے ایک محلے دار نے وہ کاغذات مجھے لا دیے جو اسے سڑک پر پڑے ملے تھے پہلی فرصت میں دوست کو کال کی اسے ساتھ لیا اور تھانے پہنچ گیا تا کہ رپورٹ خارج کر واسکوں جب تھانے پہنچے تو اسی محرر سے ملاقات ہوئی مگر دوست کا جاننے والا اے۔ایس۔آئی موجود نہ تھا میں نے محرر کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا تو محرر صاحب نے ایسے منہ بنایا جیسے خدا نخواستہ میں کسی کو نا حق قتل کر آیا ہوں
محرر صاحب نے ساری بات سن کر جب بو لنا شروع کیا تو ایک کے بعد ایک بجلی گراتے چلے گئے انہوں نے ارشاد فرمایا کہ اس سے بہتر ہے کہ آپ نئے کاغذات بنوالو کیونکہ اب یہ رپورٹ خارج نہیں ہو سکتی اگر اس کو خارج کرنے جائیں گے تو بہت ساری مشکلات کا سامنا ہو گا کیو نکہ یہ رپورٹ اب ا یف آئی اے،سی آئی اے،پولیس ہیڈکواٹر اور پتہ نہیں کون کون سے محکموں میں پہنچ گئی ہے اس لیے اسے اب سب متعلقہ محکموں سے خارج کروانا ہو گا ورنہ آپ کو کسی بھی جگہ کوئی بھی ادارہ گرفتار کر لے گاکہ یہ چوری کی موٹرسائیکل ہے محررصاحب کی داستاں نے مجھے پریشان کر دیا اورمیں انکا منہ دیکھتا رہ گیا میں نے عرض کیا جنا ب مجھے کچھ وقت دیں تا کہ سوچ کر فیصلہ کر سکوں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر آ گیا دوست بھی میرے ساتھ حیران وپریشان باہر آگیا اس سے پہلے کہ میںاس سے کوئی مشورہ لیتا وہ مجھے دو منٹ کاکہہ کر پھر واپس اندر چلا گیا تھوڑی دیر انتظار کے بعد میںبھی دوبارہ کمرے میں چلا گیا تو اندر کا ماحول مکمل طور پر بدل چکا تھا محرر نے میری طرف دیکھا اور بڑی خوش اخلاقی سے بولا صا حب بہادر پریشان کیوں ہوتے ہو یہ لو آپکے مسئلے کو حل کیے دیتے ہیںیہ کہہ کر اس نے رپورٹ کو پھاڑ کر پھینک دیا اور بڑے اطمینان بخش لہجے میں بولا کہ آپ کی رپورٹ خارج ہو گئی
اب آپ بے فکر ہو کر جا سکتے ہیں میں ابھی حالات کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ دوست نے مجھے بازو سے پکڑا اور باہر لے آیا میں نے دوست سے پو چھا یہ کیا ماجرا ہے تو وہ بولا کہ میں نے اسے سو روپے دیے تا کہ چائے پی لے تو بس پھر کیا تھا اسکا ڈرامہ ختم میں نے دوست سے کہا یہ آ پ نے اچھا نہیں کیا یہ گنا ہ ہے بحرحال ہم وہاںسے چل دیے یہ تو تھا پاکستان کا واقعہ اب میں آپ کو سعودی عرب میں پیش آ نے والے واقعے کے بارے میں آگاہ کرتا ہوں جو اس سے مماثلت رکھتا ہے تا کہ ہم موارنہ کر سکیں۔میرا بیٹا ایک دن گم ہو گیا میں نے کچھ دیر ڈھوڈنے کی کوشش کی جب نا ملا تو میں نے پو لیس اسٹیشن کا رخ کیا اور بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ درج کر وائی رپورٹ درج ہوتے ہی پولیس سر گرم ہو گئی اور مجھے مختلف پٹرولنگ کارز سے کالز آنے لگ گئیں کہ بچے نے کیسے کپڑے پہننے ہیں کیسا دکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔اللہ کی کرنی تقر یبا چار گھنٹے بعد بچہ خود گھر واپس لو ٹ آیا میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور بچے کو ساتھ لے کر پولیس اسٹیشن چلا گیاتمام پولیس آفیسرز بہت خوش ہوئے سب نے مبارکباد ی اور میرے سامنے بیسوں جگہ فون کر کے اطلاع دی کہ بچہ مل گیا۔
اب ذرا غور کریں ایک طرف میرے پیارے وطن پاکستان میں پیش آنے والا واقعہ ہے جہاں میں پیدا ہوا جہاں کی ہر شے سے میرا رشتہ خون کا ہے وہاں کے پولیس والوں کا رویہ میرے ساتھ کیا تھا اور دوسری طرف پردیس جہاں میرا ہر رشتہ عارضی ہے وہاں کے پولیس والوں کا رویہ آپکے سامنے ہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان دونوں مختلف رویوں کی وجہ سے انکا انکے معاشرے میں کیا مقام ہے پاکستان میںپولیس کی عزت صرف انکے منہ پر کی جا تی ہے باقی جو خیالات اور جذبات پاکستانی شہریوں کے انکے بارے میں ہیں وہ کسی سے پو شیدہ نہیں۔حالیہ دنوں میں اسلام آباد پی ٹی آئی کے دھرنوں کے دوران نوجوان پولیس والوں کی ایسی پٹائی کر رہے تھے جیسے کوئی کار خیر سر انجام دے رہے ہوں دوسری طرف یہاں پولیس والوں کا رعب اتنا ہے کہ بیس سال کاکمزورسا سپاہی جیسے اگر کوئی ایک طمانچہ رسید کرے تو تین میٹر سے بھی دور جا گر ے گا اپنے ہاتھ کے اشارے سے ساری ٹریفک کھڑی کر دیتا ہے اور مجال ہے کہ کوئی چاہے کتنا بڑا آدمی کیوں نہ ہو ایک انچ بھی آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کر سکتا کیونکہ انہوں نے اپنی وردی کا مقام اپنی عوام کے دلوںمیں پیدا کیا ہے ۔ایک دفعہ میں جدہ کی ایک سڑک پر کھڑا دوست کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک گاڑی نے شاید یلو لائٹ میں سگنل کراس کر دیا تو پولیس والے نے اسے روک لیا
گاڑی میں ایک فوجی تھا جسکے اسٹارز سے ظاہرہورہا تھاکہ وہ بڑا آفیسر ہے لیکن وہ اپنی گاڑی سے اترا پولیس والے کے پاس آیا اپنے کاغذات دیے اور فائن کروا کے چلا گیا میں سوچ رہا تھا کہ میری زندگی میں پاکستان میں ایسا وقت آئے گا کیا؟یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں کرائم کی شرح بہت کم ہے جبکہ ہمارے ملک میں کرائم کی شرح میں کراچی سب پر سبقت لے گیا حالیہ سروے کے مطابق کرا چی میں پچھلے سال دو ہزار سے زائد عام شہری اور دو سوکے لگ بھگ پولیس والے اپنی جانوں سے ہا تھ دھو بیٹھے کراچی میں رپورٹڈ کرائم میں 108اغوابرائے تاوان،400سے زائد گاڑیوں کی چوری کی واردات ریکارڈ کی گئی۔این سی ڈی کے سروے کے مطابق 2007کی نسبتا17.86%کرائم کی شرح میں اضافہ ہوا جو قابل تشویش ہے اس سے تو یہ گماں ہو تا ہے کہ ہماری جمہوری حکومتیں کرائم کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔پاکستانی جرائم پیشہ مافیہ بین ا لاقوامی طور پر بھی خاصی بد نامی کا باعث بن رہا ہے اس مافیہ کی سپورٹ اثرورسوخ والے لوگ کر رہے ہیں یہ مافیہ ڈرگ،اسلحہ اور ہیروئن اسمگلنگ جیسے گھنائونے جرائم میں ملوث ہے۔
پاکستان کا شمار ایشا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہیروئن کی پیداوار ہوتی ہے یہ ہیروئن افغان باڈرپر اور KPK میںبکثرت پائی جاتی ہے بحر حال ہمارے محافظوں کی بد سلوکی کا سبب کم معاوضہ اور سخت ڈیوٹی ہے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ہمارے بہت سے پولیس آفیسرز انتہائی ایمانداری اور خلوص کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں جنکی بدولت ہم پر سکون زندگی گزار رہے ہیں اور ہمیں یہ بات بھی زہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہی محافظ ہماری طرف آنے والے وحشیانہ واروں کے آگے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔میں اپنے ان محافظوں کو سلوٹ پیش کر تاہوں جو سردی، گرمی، دن، رات ہماری حفاظت پر مامور ہیں۔
تحریر : ساجد حسین شاہ
engrsajidlesco@yahoo.com