ہمارا ملک ہر قسم کے ہیروز سے بھرا پڑا ہے۔ آج میں آپ کی خدمت میں کم شہرت یافتہ اصلی ہیروز کے بارے میں کچھ معلومات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے ہماری بری فوج کے کارناموں کے بارے میں تو بہت سنا ہوگا، آج میں بحریہ اور فضائیہ کے بارے میں چند قابلِ فخر و قابلِ تحسین باتیں بتاتا ہوں۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران میں یورپ میں تھا۔ ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے جنگ کے بارے میں خبروں سے حالات کا علم ہو جاتا تھا۔ 1965ء کی جنگ میں افواجِ پاکستان نے بہت بہادری دکھائی تھی۔ لاہور کی حفاظت ایک سنہری تاریخی واقعہ ہے مگر ہماری ایئر فورس نے جو بہادری و مہارت دکھائی وہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہے۔ میں اس وقت ڈیلفٹ، ہالینڈ میں زیرِ تعلیم تھا اور ہر روز ریلوے اسٹیشن پر اخبارات کی دکان سے ٹیلیگراف خریدتا تھا۔ اس میں اس اخبار کے نمائندے بریگیڈیئر تھامسن کے مراسلے شائع ہوتے تھے۔ یہ بریگیڈیئر انگریزوں کے دور میں ہندوستانی فوج میں بریگیڈیئر کے بڑے عہدے پر کام کرچکے تھے اور یہاں کے حالات سے پوری طرح واقف تھے۔ اُنہوں نے جس طرح ہماری فضائیہ کی مہارت و بہادری کے واقعات قلمبند کئے تھے اس سے خون گرم ہوگیا تھا۔ ہمارے ہیرو ایم ایم عالم کی بہادری اور مہارت کی کہانیاں دل پر نقش ہوگئی تھیں۔ 1971ء میں بھی ہماری ایئر فورس نے جو بہادری دکھائی وہ ہمارے دلوں پر نقش ہے۔ وہاں ٹی وی پر دکھایا گیا کہ ہمارے صرف چار لڑاکا جہاز باقی رہ گئے تھے مگر ان بہادروں نے نہ ہتھیار ڈالے اور نہ ہی شکست تسلیم کی۔ چاروں نے جب ملکر دشمن پر حملہ کیا تو دو جہاز دشمن کی فائرنگ سے گر گئے، ایک کو نقصان پہنچا اور وہ بھی گرگیا۔ ایک اپنا مشن پورا کر کے واپس بیس پر آگیا۔ اس نے دوبارہ پٹرول بھروایا، ہتھیار لگائے اور حملہ کرنے روانہ ہوگیا۔ ٹیلی وژن والا کمنٹری کررہا تھا کہ ایسی بہادری اور ہمّت نہیں دیکھی۔ یہ اکیلا پائلٹ ہے، آخری جہاز ہے، بجائے اسکے کہ ایئر بیس پر کھڑا رہ کر ہتھیار ڈالتا یہ دشمن پر شیر کی طرح حملہ کررہا ہے۔ نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکلا۔ یعنی یہ شیر دل دشمن پر تابڑ توڑ حملے کرتا ہوا دشمن کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا اور شہید ہوگیا۔ ہم نے آج تک اس بہادر کا نام نہیں سُنا اور نہ ہی اس کی شان میں قصیدے سُنے۔ ہم نے ایم ایم عالم مرحوم کی صحیح قدر نہ کی۔ ہمارے ملک کے وقار میں اضافہ ہوتا اور ہماری آنیوالی نسلوں کیلئے ایک قابلِ تقلید مثال ہوتی اگر اس بے مثال ہیرو کو اعزازی طور پر ایئر مارشل بنا دیا جاتا۔ اللہ پاک ایم ایم عالم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!
جب میں نے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کی سربراہی سنبھالی تو ہمیں ایک ایئر ڈیفنس بریگیڈ دی گئی۔ یہ کہوٹہ میں تعینات کی گئی، جن کو رہنے سہنے کی اور دوسری سہولتیں نہ دی گئی تھیں۔ میرے نہایت قابل و معتبر ساتھی سجاول خان نے افسران کیلئے گھر، جوانوں کیلئے بیرک، میس، سوئمنگ پول، ٹینس کورٹ، مسجد، دربار ہال وغیرہ بنا دیئے بعد میں ہم نے ان کیلئے علیحدہ اسپتال بھی بنوا دیا۔ جوں جوں کام ترقی کرنے لگا، ہمیں خطرہ محسوس ہوا کہ ہندوستان کبھی بھی چھپ کر حملہ کر سکتا ہے، ہم نے ایئر فورس سے رابطہ کیا۔ ایئر چیف مارشل انور شمیم اس وقت سربراہ تھے، میری ان سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ ایک روز فرمایا:ڈاکٹر صاحب!آپ جلد اپنا کام مکمل کریں تاکہ ہم دشمن کو سبق سکھا سکیں۔ ایئر چیف مارشل جمال احمد خان، (بہت خوبصورت شخصیت کے مالک تھے) ایئر چیف مارشل حکیم اللہ، (مچھلی کے شکار کے شوقین تھے اور میرے نہایت قابل ساتھی ڈاکٹر ہاشمی کیساتھ تربیلا پر شکار کیلئے جاتے تھے) جناب ایئر چیف مارشل فاروق فیروز خان، (جو مشہور اولمپین فیروز خان کے فرزند تھے اور بعد میں چیئرمین جے سی ایس سی تھے، انکے ساتھی ایئر مارشل نجیب اور ایک اور قابل افسر تھے، نام یاد نہیں رہا)، انکے بعد ایئر چیف مارشل عباس خٹک، (دراز قد اور اعلیٰ شخصیت کے حامل تھے) انکے بعد ایئر چیف مارشل مصحف علی میر آئے تھے، نہایت قابل، محب وطن افسر تھے، اکثر مجھے چائے کی دعوت دیتے تھے۔ ان تمام قابلِ فخر شخصیات سےمیرے مراسم تھے۔
آپ کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ ہماری ہوائی حفاظت کیلئے جن افسران نے اعلیٰ خدمات انجام دیں وہ اس وقت ایئر کموڈور اور ایئر اسکواڈرن کے چیف تھے۔ ان میں ایئر مارشل خورشید انور مرزا، ایئر کموڈور جمشید (جنید جمشید کے والد، یہ جنید کو لیکر میرے پاس آئے تھے جب وہ نوعمر بچہ تھا)، ایئر وائس مارشل بخاری، ایئر وائس مارشل محمود چوہدری، ایئر کموڈور پرویز مہدی (بعد میں ایئر چیف مارشل) وغیرہ نے اعلیٰ خدمات انجام دیں اور اپنے فرائض اس طرح ادا کئے کہ دشمن (اسرائیل یا بھارت) کی ہم پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ میں اکثر انکے علاقے میں جاتا تھا اور ان کو لنچ پر دعوت دیتا تھا۔ یہ بہادر افسران خوش نصیب تھے کہ میں نے بذات خود انکو اپنے ادارے کی سیر کرائی اور جو حیات ہیں، وہ آج بھی اس خوشگوار وقت کو نہیں بھولتے۔ میرا مقصد انکا مورال بڑھانا تھا کہ اب ہم ماشاء اللہ ایٹمی قوت ہیں اور دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے قابل ہیں۔ اسی طرح نیوی کے چیف بھی آتے تھے اور ان کو بھی گھماتا تھا۔ 1979ء تک مغربی ممالک کو ہمارے کام کی خبر نہ تھی اور اس دوران میں نے اپنے نہایت قابل، ماہر، محب وطن ساتھیوں کی مدد سے مکمل خود کفالت حاصل کر لی تھی اور ہم تمام آلات خود ہی بنانے لگے تھے، یہ ایک معجزہ تھا۔اپنے 25سالہ دورِ ملازمت اور تقریباً 43سالہ دورِ قیام میں ایک بات مجھ پر عیاں ہوگئی کہ ایئر فورس اور نیوی کے افسران بہت لائق اور سمجھدار ہوتے ہیں، ان کی فنّی ٹریننگ بہت اعلیٰ ہتھیاروں پر کی جاتی ہے اور یہ انکی عقل و فہم میں بہت اضافہ کرتی ہے۔ نیوی کے افسران میں تمام عہدیداروں سے ہی تعلق رہا اور انہیں بہت اچھا پایا۔ ایڈمرل افتخار احمد سروہی، ایڈمرل سعید محمد خان، ایڈمرل نیازی، ایڈمرل طاہر، ایڈمرل فصیح بخاری وغیرہ بہت اعلیٰ افسران تھے۔ ایک مرتبہ میں نے ایڈمرل نیازی سے درخواست کی کہ دوچار افسران دیدیں، انکے پاس کمی تھی، انہوں نے کہا: ڈاکٹر صاحب جو اچھا آدمی، جتنی تنخواہ پر ملے، لے لیں۔ میں اس کی تنخواہ دیدوں گا۔ ایڈمرل سروہی بہت اعلیٰ فنّی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ آپ نے مجھے میزائل ڈویلپمنٹ پروگرام کا چیف کوارڈی نیٹر بنا دیا تھا، میں نے وقت پر اعلیٰ میزائل بنا کر انکے اعتماد کو صحیح ثابت کر دیا تھا۔ انہوں نے ایک بہت اعلیٰ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کا پرپوزل حکومتوں کو دیا مگر پہلے بھی اور اب بھی، کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ میرے پاس ایئر فورس کے چند افسران آتے تھے شمیم، محمد علی اور شامی۔ انہوں نے اعلیٰ خدمات انجام دیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خواہ وہ دشمن سے مقابلہ ہو یا تخریب کاروں اور دہشت گردوں سے، بغیر ایئر فورس یعنی شاہینوں کے ہم کوئی جنگ نہیں جیت سکتے۔ پچھلے دنوں ہندوستان کا غرور خاک میں ملانے والے بھی شاہین ہی تھے۔ پاکستان ایئر فورس زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔