لاہور (ویب ڈیسک) عمران خان جب سے حکومت میں آئے ہیں دیگر کئی دعوؤں کے ساتھ بار بار یہ بھی دہرا رہے ہیں کہ کسی کو این آر نہیں دوں گا۔ 1999 ء کے مارشل لاء کے بعد جنرل (ر) پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس سے بھی زیادہ نعرے لگایا کرتے تھے، نامور کالم نگار نوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جسے حقیقی معنوں میں این آر او کہا جاتا ہے وہ کوئی مذاق نہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کیے جانے والے این آر او کا اردو ترجمہ قومی مصالحتی آرڈیننس تھا، ایسے کسی معاہدے کو کوئی اور نام بھی دیا جاسکتا۔ بنیادی طور پر یہ ریاست اور سیاسی انتقام کے جال میں پھنسے دوسرے فریق کے درمیان ایسی مفاہمت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں دونوں کو فائدہ ہونا لازم ہوتا ہے۔سو اس کے لئے دونوں فریقوں کا رضا مند ہونا ضروری ہوتا ہے، خواہ اپنی مرضی سے یا کسی بیرونی طاقت کی براہ راست مداخلت پر۔پاکستان میں مقامی سطح پر این آر او ہمیشہ سے جاری رہا اور آج بھی جاری ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے جو لوٹے نکال کر پی ٹی آئی میں شامل کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ ان لوٹوں کے ساتھ این آر او نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ کیا ان کے ساتھ سیاسی معاملات پر این آر او نہیں ہو رہا۔ ایک ہی طرح کے مقدمات میں مختلف فیصلے۔علیمہ خان، جہانگیر ترین، بابر اعوان سمیت حکومتی سائیڈ کے سینکڑوں مقدمات میں جو کچھ ہورہا ہے،وہ بھی این آر او ہی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف دور کی مسلم لیگ (ق)کی جگہ پی ٹی آئی کا قیام ملک گیر این آر او کے تحت ہی عمل میں لایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے سب سے زیادہ شکایت بھی چودھری برادران نے ہی کی، جو موبائل فون کالز کی ریکارڈنگ اور دیگر شواہد لے کر اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ہاں جا پہنچے اور بتایا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کیا ”کرامات“دکھارہے ہیں۔جنرل کیانی نے چودھری برادران کو جھوٹا دلاسہ دے کر رخصت کیا اور پی ٹی آئی کو نئی کنگز پارٹی بنانے کے ریاستی منصوبے پر کام جاری رکھا۔ اس لمبی چوڑی مشق کے نتیجے میں آج عمران خان وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں انہیں ”سلیکٹڈ“ کہہ کر چھیڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ موجودہ حکومتی سیٹ اپ کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت این آر او مانگ رہی ہے۔اُدھر ان دونوں جماعتوں کی جانب سے چیلنج کیا جاتا ہے کہ یہ سراسر جھوٹ ہے، اگر اس میں رتی برابر بھی سچائی ہے تو نام سامنے لائے جائیں کہ کس نے کس کو ایسا کرنے کے لئے کہا؟آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں مختصراً یہ دیکھنا ہو گا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے پہلے نواز شریف اور پھر اقتدار کے آخر ی دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے این آر او کیوں کیا، یہ غلط فہمی دور کر لی جائے کہ دوست اسلامی ممالک کی براہ راست خواہش پر ایسا کیا گیا تھا، سعودی عرب ہو، امارات، قطر یا پھر ترکی،سب کو علم ہے کہ پاکستان میں ڈیل کس سے کرنی ہے، امریکہ اور چین وغیرہ تو اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہیں۔ چین بھی سول حکمرانوں کو صرف رسمی اہمیت دیتا ہے، اس کی تازہ ترین مثال پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سی پیک سے متعلق خدشات کے بارے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اپنی ٹیم کے ہمراہ 10روزہ دورہ تھا۔اس دورے میں اعلیٰ حکام کے علاوہ چینی صدر نے بھی پاکستانی فوجی قیادت سے براہ راست مذاکرات کیے۔ویسے اگر دنیا کی طاقتور ترین امریکی یا روسی افواج کے سربراہان بھی دورے پر چین آ جائیں تو انہیں چینی صدر سے ملنے کا موقع شاید ہی نصیب ہو۔ اب واپس آتے ہیں جنرل (ر) پرویز مشرف دور کی طرف۔ نواز شریف کو باہر جانے کا موقع خالصتاً امریکی مداخلت کے سبب ملا۔ کارگل واقعہ کے مضمرات کے باعث یہ طے کیا جا چکا تھا کہ نواز شریف کوپھانسی دے کر معاملات کا رخ موڑا جائے، ایسے میں ٹھوس اطلاعات ملنے پر امریکی صدر بل کلنٹن اچانک پاکستان کے دورے پر آئے، جنرل (ر) پرویز مشرف انتظامیہ کے ساتھ سرد مہری کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اسلام آباد آ کر واضح کر دیا کہ نواز شریف کو کوئی جسمانی نقصان نہیں پہنچناچاہیے،یعنی سزائے موت نہیں دی جاسکتی۔ یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا۔پھر تین عرب ممالک سعودی عرب، امارات اور قطر آگے بڑھے اور آگے جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کا جنرل (ر) پرویز مشرف سے این آر او امریکی احکامات پر ہوا اور امارات نے اس سلسلے میں سہولت کار ریاست کا کردار ادا کیا۔دوست خصوصاً عرب ممالک صرف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرتے آئے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ سب کچھ ہوتا بھی یہیں سے ہے۔ امریکی بیانات اور احکامات بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک ہوائی فائر، دوسرا یقینی نشانہ۔جس ملک سے کوئی بات منوانی ہو اسے حقیقی صورت حال سے آگاہ کر دیا جاتا ہے،جنرل (ر) پرویز مشرف نواز شریف کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے، بے نظیر سے این آر او کیا، لیکن ان کو سیکیورٹی فراہم نہ کر سکے،امریکہ اس بات پر برہم ہوا،پہلے جنرل (ر) پرویز مشرف کی اقتدار سے چھٹی ہو گئی،آج جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے ادارے کی بھرپور سپورٹ کے باوجود بیرون ملک رہنے پر مجبور ہیں،کبھی ہسپتال، کبھی گھر، کبھی کہیں رلتے پھررہے ہیں اور ان کے بعض ساتھیوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔اسی طرح بعض معاملات پر امریکی حکومت کی سرتابی کرنے والے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کیا ہوا پوری دنیا نے دیکھا۔ذوالفقار علی بھٹو جیسے عظیم لیڈر کی مثال موجود ہے، نجانے دنیا کے کتنے مسلم یا غیر مسلم ممالک ان کی پھانسی رکوانا چاہتے ہوں گے۔ امریکہ اس کے برعکس چاہتا تھا اور جنرل ضیاء الحق نے وہی کیا۔یہ تاریخی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ این آر او کروانے میں سپرپاور ملوث ہو تو کوئی اور مداخلت کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ کو نواز شریف یا آصف علی زرداری سے کوئی دلچسپی نہیں۔ سی پیک کی مخالفت میں اس کی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں۔ امریکہ سے پوچھے بغیر کوئی عرب ملک ایسے معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتا۔سعودی ولی عہد ہوں، امارات کے سربراہ یا امیر قطر سب سپرپاور سے پوچھ کر اہم فیصلے کرتے ہیں،کیونکہ ان کے اپنے ممالک میں ان کا اپنا اقتدار اور سیکیورٹی بڑی حد تک امریکی فورسز کی مرہون منت ہے۔ آپ دیکھ لیں جیسے ہی ہم نے امریکہ کی شرائط پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا ہے، سعودی عرب نے ادھار تیل شروع کر دیا، امیر قطر پاکستان کا دورہ فرما گئے، زرمبادلہ کی مد میں امارات سے ڈالر ملنا شروع ہو گئے۔ سو این آر او کی اس وقت جو کوشش ہورہی ہے،اس کی بنیاد مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاست کا خاتمہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادت کوئی ایسا معاہدہ کر کے ملک چھوڑ دے جس کے نتیجے میں پارٹیاں تتربتر ہو جائیں یا پھر مکمل طور پر ”سرکاری“ کنٹرول میں آجائیں، لیکن معاہدہ نہیں ہو پارہا۔ چین کو اس صورت حال پر تشویش ہے،لیکن اس کی پالیسی میں مداخلت کرنا شامل ہے ہی نہیں۔ترکی بھی فکر مند ہے،لیکن طیب اردوان اسلامی ممالک کی سب سے بڑی اور جدید ترین اسلحہ سے لیس فوج رکھنے کے باوجود مصر میں اپنے بھائیوں، جیسے دوست منتخب صدر مرسی کو جنرل سیسی کے ہاتھوں نہ بچا سکے۔ جس این آر او کے متعلق عمران خان سے بیانات دلوائے جارہے ہیں، اس کی شرائط پر فریقین راضی ہی نہیں، اسی لئے تو بحران ہر سمت میں بڑھ رہا ہے۔ عمران خان اپوزیشن کو طعنہ دیتے ہیں کہ جس مرضی بادشاہ کے گھٹنے پکڑ لیں، این آر او نہیں ملے گا، شاید سب سے بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان کا کسی این آر او سے کوئی لینا دینا نہیں اور یہ پوری دنیا کو پتہ ہے، ان کا یہ دعویٰ کہ یہ سب جانتے ہیں کہ مَیں ایسا نہیں کروں گا مضحکہ خیز ہے۔ دنیا میں آج بھی عمران خان کا تعارف کرکٹر کے طور پر ہی ہوتا ہے،صرف ان ممالک میں جہاں کرکٹ کھیلی جاتی ہے، باقی ان کی شہرت کس حوالے سے ہے، لکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔سعودی عرب، قطر، امارات، چین، ترکی کو کرکٹ سے دلچسپی نہیں، نہ ہی کپتان کی ذات سے۔پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں کس بات کے لئے کس سے ڈیل کرنا ہے، ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا، سعودی عرب میں گھریلو ملازم سطح کے دو بنگلہ دیشی باشندوں نے اچانک مجھ سے سوال پوچھا کہ ”انہوں“ نے نواز شریف کو کیوں نکالا؟بعض ”اعلیٰ“ درجے کے دانشور امیر قطر کے حالیہ دورے کو شریف خاندان کے کسی این آراو سے جوڑرہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت خود چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اپنے پیسے دو اور جاؤ۔اگر امیر قطر ایسا کرانے کے لئے آتے تو یہ رقم ان کے لئے مونگ پھلی کے دانے سے زیادہ نہیں۔اگر انہوں نے واقعی اپنے طور پر ایسی کوئی کوشش کی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انکار زیر عتاب فریق نے کیا، جو شرائط ماننے پر تیار نہیں، ویسے یہ سب جھوٹ ہے، امیر قطر سفارتی دورے پر آئے تھے۔ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت نے اس حوالے سے فوری طور پر اپنی تشویش سے ریاست پاکستان کو آگاہ کر دیا۔ چنانچہ امیر قطر آئے تو عمران خان ڈرائیور بن گئے، واپسی ہوئی تو سرکاری ڈرائیور سے گاڑی چلوائی اور ہوائی اڈے پر چھوڑنے کے لئے زلفی بخاری گئے۔یہ ہے ہماری سفارتی آزادی کی حقیقت۔