پچھلی رات کوئی ایک ڈیڑھ بجے تک فیس بُک پر دانش گردی کرنے کے بعد خیال آیا کیوں نہ آج زرا وقت پر سو لیا جائے تاکہ صبح جلدی اُٹھ کر اقبالؒ اور جوش والی سحر خیزی کا مزہ لے سکوں، شاید مُجھ گنہگار کو بھی بڑے لوگوں کی طرح کوئی غیبی اشارہ نصیب ہو سکے اور “کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب”۔ بس یہی سوچ کر آنکھوں کی سپنوں کے کباڑ سے بھری دکان پر پَلکوں کا شَٹر گِرا دیا۔ ایک دو کروٹ بدلی، محسوس ہوا کہ نیند ابھی زرا خفا خفا سی ہے، پھر کچھ سوچا اور بستر سے اُٹھ کر اندھیرے میں پاؤں مار کر چپل تلاش کیے اور ٹھنڈے ٹھنڈے چپل پہن کر باہر نکلا۔ باہر گہرے پُراسرار سنّاٹے میں لپٹی رات بال کھولے اپنی جوانی کے بامِ عروج پر کھڑی مجھے خالی خالی نظروں سے گُھور رہی تھی۔ ہَوا میں کل رات آنے والی بارش کی بھینی بھینی خوشبو واضح محسوس ہو رہی تھی، صحن میں دودھیا روشنی پھیلاتا بلب شب کی گہری تاریکی پاٹنے کی اپنی سی کوشش میں لگا تھا۔ حسبِ دستور چاند کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا تو چھوٹے چھوٹے لاتعداد ستاروں کے جمگھٹے میں گِھرا آدھا چاند کچھ کچھ افسردہ لگ رہا تھا۔ خیال آیا کہ سردیوں کی راتوں میں جب سب عشاقِ کرام شام ڈھلتے ہی کمروں میں گُھس جاتے ہوں گے تو چاند اکیلا کتنا اُداس ہوتا ہوگا۔
پاکپتن ۔میاں خاور مانیکا معاملہ پاکپتن ۔بشری مانیکا کے سابق شوہر میاں خاور فرید مانیکا اور ڈسٹرکٹ پولیس آفسیر پاکپتن رضوان عمر گوندل کے اختلافات کی اندرونی کہانی ……. www.yesurdu.com, en.yesurdu.com
Publiée par Yes Urdu sur Mercredi 29 août 2018
وہی عشاق گرمیوں کے رَت جگوں میں اسی چاند کے سہارے اپنی شبِ تار کی تنہائیوں کو دور کرتے ہیں اور سردیاں آتے ہی چاند کو اکیلا چھوڑ کر کمروں میں گھسے رہتے ہیں، ویسے انسان بڑا بےوفا واقع ہوا ہے۔ خیر! ساڈا کی اے” کچھ دیر گھر کے ٹھنڈے صحن میں آوارہ خرامی کرتا رہا اور پھر جانے کیا خیال آیا کہ بڑے گیٹ کا کُنڈا آہستگی سے کھولا اور باہر کی راہ لی۔ باہر دُور دُور تک نہ بندہ نہ بندے کی زات،، درخت گُم سُم کھڑے اونگھ رہے تھے، سناٹوں کا شور مَن کے باطنی کانوں کے پردے پھاڑنے ہر تُلا ہوا تھا۔ دن بھر موٹروں گاڑیوں کا بوجھ سہہ سہہ کر تھکی ماندی سڑک خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔ سڑک کنارے اُگی ہوئی گھاس سے ایک مانوس سے اجنبی خوشبو اُٹھ رہی تھی۔ اس دوران کنوارے پن سے بیزار دل میں ایک عجب سا خیال آیا کہ کاش کہیں ایسا ہوتا کہ اسی موسم، وقت اور کیفیت میں کسی اجنبی گُل اندام پری چہرہ صنفِ مخالف کا مومی سا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہوتا اور یوں ہی ہم دونوں اس مخمور رات کی ہلکی دودھیا چاندنی کے سایے تلے دور تک خاموش سڑک پر چلتے جاتے اس سرد رات میں ایک دوسرے کو اپنے اِجرام کی حدت سے پگلاتے جاتے۔ اسی دوران شریر ہوا کے ہلکے سے جھونکے سے اسکی لہراتی بل کھاتی آبشاری زلفِ شبِ گُوں کا چھینٹا اسکی مرمریں سی پیشانی پر پڑ جاتا اور میں اسکا ہاتھ پکڑ کر اُسی کے دستِ نازنیں کی بلوریں انگلیوں سے اُسکی دمکتی ہوئی جبیں سے زلفِ عنبریں کی لٹ ہٹا کر اسکے نازکیں گُل پنکھ کانوں پر ٹھہرا دیتا اور اِس منظر کو اپنی آنکھوں کی یاداشتوں میں ہمیشہ کیلئے سمو لیتا۔ بس انہیں خیالوں میں سڑک پر بہت دور نکل آیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر دوستو! کیا پوچھتے ہو اسی دوران قریب کی جھاڑی سے ایک بڑا سا کالے رنگ کا کُتا غراتا ہوا نکلا اور دستِ اجل کی طرح مجھ پر ٹوٹ پڑا، سارے خواب و خیال چکنا چور ہوئے سڑک پیروں تلے سے نکل گئی، دل کسی باندر کی طرح اچھل کر حلق کی کھڑکی میں آ بیٹھا، خون رگوں میں جم کر رہ گیا اور حواس کی سٹی سڑک پر کہیں گُم ہو گئی، اور میں نے جوتے ہاتھ میں پکڑ کر دوڑ لگا دی، کچھ اندازہ نہیں تھا کہ گھر کس طرف ہے اور میں نے دوڑ کر کس منزلِ مقصود تک پہنچنا ہے، ایک بےبسی کا عالم تھا طشتِ فلک کے سارے تارے ایک کنوارے کی بےچارگی پر قہقہے لگا رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ غضب ناک کُتا مجھے دبوچ کر میری تکہ بوٹی کر کے اپنے ولیمے کا سامان کرتا، اسی اثنا میں ایک دوسرا کتا کہیں سے نکل کر مجھ پر لپکنے والے کتے پر لپکا اور دونوں باہم گتھم گتھا ہو گئے۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور گھر کی راہ لی۔ گھر پہنچ کر سُکھ کا سانس لیا حواس بحال کیے، اپنی کنوارگی پہ لعنت بھیجی اور رضائی اوڑھ کر آنکھوں پر پلکوں کا شَٹر دوبارہ گِرا دیا۔ اس واقعے کے بعد سحر خیزی کے غیبی اشاروں پر میرا کامل یقین ٹھہر گیا ہے۔ اور مجھے جو اشارہ ملا وہ یہ تھا۔۔ “میاں اپنی اوقات میں رہو”۔۔۔۔۔۔۔۔!
بدتمیز ریڑھی والے کو دیکھیں ………………………………….. Www.Yesurdu.Com
Publiée par Yes Urdu sur Jeudi 23 août 2018