اس نوجوان کا اضطراب دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
کچھ دیر قبل وہ قصبے کے واحد حجام کی دکان میں داخل ہوا تھا۔ براؤن نامی حجام گاہک کی شیو بنانے میں مصروف تھا اور اس کے ہاتھ ماہرانہ انداز میں استرے کی دھار کو گاہک کے گالوں پر چلا رہے تھے۔
دکان میں پہلے سے موجود دو تین گاہک اپنی باری کے انتظار میں مختلف اخبارات کے مطالعے میں محو تھے۔ نوجوان کبھی ایک پہلو بدلتا تو کبھی دوسرا۔ اسے غالباً جلدی تھی یا پھر وہ انتظار کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔
ایسے میں اس کی نظر دکان کے اندر قدرے اونچائی پر بنے ہوئے ایک چھجے پر پڑی۔ وہ کچھ دیر غور سے دیکھتا رہا پھر اس کے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات ابھرے جیسے اس نے کوئی کڑوی چیز نگل لی ہو۔
“اس الو کو کس نے حنوط کیا ہے؟” اچانک وہ ترش اور بلند آواز میں تقریباً چلا کر بولا۔
حجام شیو بنانے میں مصروف تھا۔
اس نے نوجوان کی آواز پر کان نہیں دھرے۔ گاہک جو اخبارات کے مطالعے میں غرق تھے انہوں نے ایک اچٹتی ہوئی نظر نوجوان پر ڈالی اور دوبارہ مطالعے میں غرق ہو گئے۔
“کیا تم دیکھ نہیں رہے مسٹر براؤن؟” نوجوان ایک بار پھر تیز لہجے میں بولا۔
“یہ سارے کا سارا الو کس قدر بے ہودگی سے حنوط کیا ہوا ہے۔ ذرا اس کے پروں پر تو نظر ڈالو۔ کس قدر بے ہنگم پر بنائے ہیں۔ اور اس کا سر۔” نوجوان نے ایک لمحے کو توقف کیا۔
“اس کا سر دیکھا ہے تم نے؟ کیا الو کا سر ایسے چپٹا ہوتا ہے؟” نوجوان نے گہری سانس لی۔
“گردن کس طرح نیچے کی طرف جمائی گئی ہے۔ کمال ہے۔ بھلا کسی الو کی گردن کیسے اس زاوئیے پر قائم ہو سکتی ہے؟ قصہ مختصر۔ یہ پورا کا پورا الو بالکل برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ چچ چچ۔” نوجوان نے افسوس کا اظہار کیا۔
“مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ میں نے الوؤں کے بارے میں بہت پڑھا ہے۔ بہت تحقیق کی ہے۔ دن رات لگا کر الوؤں کی سیکڑوں اقسام کے بارے میں جانا ہے۔ دنیا میں پائے جانے والے الو مجھے ازبر ہیں۔ اور میں کسی ایسے الو کو برداشت نہیں کر سکتا جس کو اس بری طرح سے حنوط کیا ہو۔ پتا نہیں کس اناڑی نے اس کو چونچ سے لے کر دم تک مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔” اس نے گردن ہلائی۔
“مسٹر براؤن! مسٹر براؤن! خدا کے لیے اس پرندے کو نیچے اتارو ورنہ پورے قصبے میں تمہارا مذاق اڑےگا۔” نوجوان نے باقاعدہ التجا کرتے ہوئے کہا۔
حجام بدستور شیو بنانے میں مصروف تھا۔ اس نے نوجوان کی التجا کو بھی گویا نظر انداز کر دیا۔
نوجوان نے سلسلہ کلام دوبارہ جوڑا۔
“میں نے الوؤں کے بارے میں باقاعدہ علم حاصل کیا ہے۔ اور دوسرے پرندوں کے بارے میں بھی جن کو کھایا بھی جا سکتا ہے۔ جو کچھ میں نے علم حاصل کیا ہے اس کی بنیاد پر میں تمہیں بالکل سچ بتا رہا ہوں کہ ایک الو کبھی ایسے اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر آرام نہیں کر سکتا۔ اور دنیا میں کوئی بھی الو ایسا نہیں ہے جس کے پنجے اس طرح خم کھائے ہوئے ہوں یا اس کی ٹانگیں اس قدر ٹیڑھی ہوں جس قدر اس الو کی ہیں۔” نوجوان سانس لینے کے لیے رکا۔ اس کا لہجہ غصیلا ہو چلا تھا
“میں نے اپنی زندگی میں کسی الو کی کبھی بھی اس قدر واہیات چونچ نہیں دیکھی اور نہ ہی کسی الو کی گردن پر اس طرح جھالر یکھی ہے۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا۔ حنوط کرنے والے نے بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے جب کہ پرندوں کی ساخت کے قوانین کسی حنوط کرنے والے کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔” نوجوان کے لہجے میں تپش بڑھ گئی۔
“حنوط کرنے والا پرندوں کی اناٹومی سے بالکل ناواقف ہے۔ پرندوں کا علم بتاتا ہے کہ کسی الو کا پنجہ اس طرح خم دار ہرگز نہیں ہو سکتا۔ میں نے سفید الو پر برسوں تحقیق کی ہے اور اس بدصورت حنوط شدہ الو نے میرے آنسو نکال دیئے ہیں۔” نوجوان نے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے کہا۔
“مسٹر براؤن میں حیران ہوں۔ تمہیں تو ایسے واہیات پرندے کو یہاں سجا کر رکھنے کی بنا پر پاگل خانے میں ہونا چاہیئے تھا۔ مجھے تو اس الو کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے میں ابھی دھڑام سے گر جاؤں گا۔ جس کسی نے بھی اس الو کو حنوط کیا ہے وہ فن حنوط کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہے۔” نوجوان نے اس بار حجام کا باقاعدہ مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا۔
حجام خاموشی سے شیو بنانے میں مصروف رہا۔
“ذرا اس کی آنکھوں کو تو دیکھو۔” نوجوان کی تسلی نہیں ہوئی تو وہ پھر سے شروع ہوا۔
“اس کو حنوط کرنے والے نے کس قدر گھٹیا آنکھیں لگائی ہیں جو کہیں سے بھی قدرتی معلوم نہیں ہوتیں۔ بلکہ اگر “آڈوبان” اس کو دیکھ لے تو اس کی چیخیں نکل جائیں۔ اور جس قسم کی پرتیں اس الو کی بنائی گئی ہیں ان پر “جان بارو” بھی قہقہے لگائے۔” نوجوان نے پرندوں کا علم رکھنے والے مشہور ماہرین فن کے نام لیتے ہوئے قہقہہ لگایا۔
“اس الو کو نیچے اتارو تاکہ اس کو ازسرنو حنوط کیا جا سکے مسٹر براؤن۔”
حجام مسلسل شیو بناتا چلا جا رہا تھا۔
نوجوان نے پرجوش انداز میں کہنا شروع کیا۔
“میں اس کو مٹی اور لکڑی کے باریک برادے سے تیار کروں گا۔ اس پر درختوں کی چھال سے تہ جماؤں گا۔” نوجوان کا لہجہ خواب ناک ہو گیا۔ پھر جیسے اس کے ذہن میں کوئی خیال آیا۔
“اس الو سے تو بہتر ہے کہ میں ایک پرانی ٹوپی بنا دوں۔ وہ اس نہایت واہیات الو سے بہتر قسم کا الو دکھائی دے گی۔ یہ تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے کھردرے چمڑے کے باہر والی جانب سے بنایا گیا ہو۔ اس کا تو ایک پر بھی قدرتی معلوم نہیں ہوتا۔” نوجوان باقاعدہ توہین آمیز انداز میں بولا۔
اور عین اسی وقت چھجے پر بیٹھے الو کے پروں میں پھڑپھڑاہٹ ہوئی۔
نوجوان کی آنکھیں مارے حیرت کے پھٹ گئیں۔
ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ آنکھ مارتے ہوئے چھجے پر بیٹھا ہوا الو جیسے بے اختیار ہو کر آگے کوجھکا اور نہایت متانت سے وہ چھجے سے نیچے اتر آیا۔
نوجوان منہ کھولے الو کو حرکت کرتے دیکھ رہا تھا۔ اس کا وہ حال تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو تک نہ ہو۔
ادھر ادھر مٹکتے ہوئے الو نے اپنی خامیاں گنواتے ہوئے نوجوان کو (جو اسے حنوط شدہ سمجھ رہا تھا) نہایت طنزیہ نظروں سے دیکھا اور پھر نہایت نپی تلی اور بلند آوازمیں، جیسا کہ اسے ہونا چاہیئے تھا، گویا ہوا۔
“تمہارا سیکھا ہوا علم بہرحال اس مرتبہ غلطی پر ہے۔ تمہاری مہربانی اگر تم ایک زندہ پرندے پر اپنا قیمتی وقت ضائع مت کرو۔” الو کی کاٹ دار آواز نے نوجوان پر جیسے گھڑوں پانی ڈال دیا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا۔
“میں تو ایک الو ہوں۔ مگر تم یقیناً الو کے پٹھے ہو جناب تنقید نگار صاحب۔ خوش رہو۔” الو چہکا۔
نوجوان خاموشی سے اٹھا اور چپ چاپ دکان سے باہر نکل گیا۔ گاہکوں کے قہقہے دور تک اس کا پیچھا کرتے رہے۔
حجام بدستور شیو بنا رہا تھا۔