counter easy hit

اوزون کا عالمی دن

Ozone

Ozone

تحریر : اختر سردار چودھری
اوزون میں آکسیجن کے تین ایٹم ہوتے ہیں، (O3) آکسیجن کا ایک بہروپ ہے ،زمین کی سطح کے قریب اوزون ایک فضائی غلاف ہے۔ اس غلاف یا پٹی کا کام ان شعاعوں سے بچانا ہے، جو انسان کے لیے نقصان دہ ہیں ۔اسے چھلنی سمجھیں جو نقصان دہ بالائے بنفشی شعاعوں کو زمین کی سطح تک پہنچنے سے روکتی ہے ۔ اوزون دراصل ایک قدرتی فلٹر ہے، جو سورج سے آن والی نقصان دہ الٹر وائلٹ شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے روکتا ہے ۔ یہ نقصان دہ شعاعیں جلد کے کینسر کے علاوہ دھوپ سے پیدا ہونے والی جلن اور آنکھوں میں موتیا کے علاوہ پودوں اور فصلوں کو جلانے کا سبب بھی بنتی ہیں۔زمین کی سطح سے تقریباً 19 کلو میٹر اوپر اور 48 کلو میٹر کی بلندی تک اوزون کی تہہ ہے۔اس تہہ کا کام جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے نقصان دہ بنفشی شعاعوںکو زمین تک پہنچنے سے روکنا ہے ۔اگر یہ تہہ نہ ہو یا کمزور ہو جائے ،جیسا کہ بعض مقامات پر ہو چکی ہے ۔اس سے جانداروں میں بہت سی بیماریاں اس شدت سے پھیل جائیں کہ کنٹرول نہ ہو سکیں ۔اس کے علاوہ زمین کا درجہ حرارت ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گا۔

1970ء کی دھائی میں یہ انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مرکبات اوزون کی اس تہہ کو تباہ کر رہے ہیں۔یہ مرکبات کلوروفلوروکاربن کہلاتے ہیں جو کہ سردخانہ (refrigerator)میں استعمال ہوتے ہیں۔کلوروفلور وکاربن یعنی سی ایف سی مرکبات کا استعمال عام طورپر انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزرز، ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات، صفائی کے لئے استعمال ہونے والی اشیاء میں ہوتاہے ۔بعض مصنوعی کھاد میں استعمال ہونے والے مرکبات مثلاً نائٹرس آکسائیڈ بھی اوزون کے لئے تباہ کن ہیں۔ 1974ء میں امریکی ماہرین ماحولیات نے اوزون کی تہہ کے تحفظ سے متعلق آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا اوزون کی تہہ کے خاتمے کی صورت میں نہ صرف دنیا بھر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا ،بلکہ قطب جنوبی میں برف پگھلنے سے چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر تباہ ہو جائیں گے۔

صنعتی کارخانے زہریلی گیس(کاربن مونو آکسائیڈ) خارج کرتے ہیں۔یہ زہریلے اجزااوزون کی گیس اوکسیجن کے ساتھ مل کرکابن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں ایک شگاف انٹارکٹیکا میں پیدا ہوچکا ہے، جس سے سیلابوں کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔( اب یہ سائنس دان کہتے ہیں تو ماننا پڑے گا ویسے شگاف اتنی دور جا کر انٹار کٹیکا میں پیدا ہوا حالانکہ قدرتی ماحول خراب امریکہ و ایشیاء والے کر رہے ہیں ) ہم دیکھ رہے ہیں موسموں میں شدت پہلے سے بڑھ گئی ہے ۔یہ سب دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 19 دسمبر 1994ء سے ہر سال 16 ستمبر کو اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا ،جس کے بعد الٹروائلٹ بی شعاعوں کے مظہر صحت خطرات کے بارے میں شعور پیدا کرنے کیلئے دنیا بھر میں 16 ستمبر کو اوزون کی تہہ کے بچائوکا دن منایا جاتا ہے ۔اوزون کی تہہ کو بچانے کے لیے بین الاقوامی برادری نے اوزون کی تہہ کو ختم والے مواد پر پابندی لگانے کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے ، جس کے بعد دنیا بھر میں سی ایف سی گیسز کے اشیاء میں استعمال کو ترک کر دیا گیا ہے۔

اوزون کی تہہ کو مزید نقصان سے بچا نے کے لیے ۔ جنگلات کا بے دریغ کٹائو روکنا ہو گا ، سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میںکمی کرنا ہو گی ، کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کا مناسب بندوبست کرنے ساتھ ساتھ ائیرکنڈیشن پلانٹس کے بے تحاشہ استعمال کے خاتمے کے لیے سخت قانون بنا کر ان کو نفاذ کرنا ہو گا۔ زمین کی سطح سے شروع ہونے والے حصے کو ٹروپوسفیئر کہتے ہیں۔ یہ تہہ زمین کی سطح سے لے کر تقریباً 10 کلومیٹر کی بلندی تک جاتی ہے ۔ زمینی فضا کی اس سے اوپر والی تہہ سٹریٹوسفیئر کہلاتی ہے اور یہ دس کلومیٹر کی اونچائی سے شروع ہوکر تقریباً 50 کلومیٹر کی بلندی تک جاتی ہے اوزون کا زیادہ تر ارتکاز سٹریٹوسفیئر کے اندر ہے ، اس کا رنگ نیلا اور مہک تیز ہوتی ہے۔

اس کے برعکس عام آکسیجن میں، جس کے اندر ہم سانس لیتے ہیں، آکسیجن کے دو ایٹم ہوتے ہیں۔ اس کا نہ تو کوئی رنگ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی بو ہوتی ہے سورج سے آنے والی ریڈی ایشن کی ایک بڑی مقدار کو اوزون جذب کرلیتی ہے اور اسے زمین کی سطح تک آنے سے روکتی ہے سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلورین کے ایٹموں سے چالیس گنا زیادہ نقصان دہ ہیں۔ماہرین کے مطابق سورج کی براہ راست شعاعوں سے انٹارکٹیکا کی برف کے پہاڑپگھل جائیں گے

جس سے سمندروں کی سطح بلندہوگی اورموسم میں تباہ کن تبدیلیاں پیداہوجائیگی۔یہ متوقع تباہی اورمصیبت انسان ہی کی کمائی ہے ۔ انسان نے نظام فطرت کوزہریلی گیس دی توقدرت نے اس کاجواب اوزون کی تباہی کی صورت میں دیا۔فضا میں اوزون کی مقدار عام آکسیجن کے مقابلے میں انتہائی کم ہے ۔ اگر ہوا میں سے ایک کروڑ مالیکیول لئے جائیں تو اس میں سے تقریباً بیس لاکھ مالیکیول عام آکسیجن کے ہوں گے جب کہ اوزون کے مالیکیولز کی تعداد صرف 3 ہو گی۔

Akhtar Sardar Chaudhry

Akhtar Sardar Chaudhry

تحریر : اختر سردار چودھری