گزشتہ چند سالوں میں بالی ووڈ میں نہ صرف فلم تبدیل ہوئی ہے بلکہ فلم دیکھنے والوں کا مزاج بھی بدل گیا ہے۔ گزشتہ سال بالی ووڈ میں جہاں بڑے بجٹ کی فلموں نے کمائی کی وہیں کئی بڑی فلمیں پٹ گئیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی ایسی بھی فلمیں آئیں جو نہ صرف چھوٹے بجٹ کی تھیں بلکہ ان میں کوئی سپرسٹار موجود نہیں تھا مگر وہ پھر بھی کامیاب ہوئیں۔
ایک عام تاثر یہی ہے کہ بالی ووڈ میں فلم کے ہٹ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اس میں ایکشن، رومانس اورایک آئٹم سانگ ضرور ہونا چاہئے۔ لیکن گزشتہ سال 2017 میں ریلیز ہونے والی انارکلی کی آرا، ٹریپڈ، ہندی میڈیم، بہن ہوگی تیری، موم، لپسٹک انڈر مائی برقع، ٹوائلٹ ایک پریم کتھا، بریلی کی برفی، قیدی بینڈ، قریب قریب سنگل، تمہاری سلو جیسی فلموں نے یہ تاثر غلط ثابت کردیا۔ بالی ووڈ میں ایک بدلتا ہوا رجحان صاف دکھائی دے رہا۔ اب فلم بین پردے میں ہیروئین کی کمر دیکھنے سے زیادہ اچھےاسکرپٹ اور سماجی مسائل میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔
گزشتہ سال اگست میں ریلیز ہونے والی اکشے کمار کی فلم ٹوائلٹ ایک پریم کتھا بھی ایک سماجی مسئلے پر بنائی گئی تھی۔ فلم نے نہ صرف ریکارڈ بزنس کیا بلکہ بھارتی سماج پر مثبت اثرات بھی مرتب کئے۔ ٹوائلٹ ایک پریم کتھا بھارت میں ٹوائلٹ کے فقدان اور خواتین کو رفع حاجت کیلئے درپیش مسائل پر مبنی فلم تھی۔
رواں برس 9 فروری کو اکشے کمار ہی کی ایک سماجی کارکن کی جدوجہد پر مبنی فلم “پیڈ مین” ریلیز ہوئی۔ فلم خواتین کے حیض اور اس دوران پیڈز کے استعمال کا شعور اجاگر کرنے پر بنائی گئی ہے۔ فلم کی ہدایت آر بالکی نے دی ہیں اور اکشے کمار کی اہلیہ ٹوئنکل کھنہ اس فلم کی پروڈیوسرہیں۔ فلم “پیڈ مین” کی کہانی بھارتی ریاست تامل ناڈو کے شہرکویمبٹور کے سماجی کارکن اروناچلم مروگناتھم کی جدوجہد کے گرد گھومتی ہے۔ اروناچلم مروگناتھم نے اپنے علاقے میں محدود وسائل اور بےشمار مسائل کے باجود خواتین کیلئے ماحول دوست اور سستے سینیٹری پیڈز بنائے۔ اروناچلم مروگناتھم نے پیڈز بنانےکیلئے ایک مشین ایجاد کی جس کے ذریعے ماحول دوست اور سستے پیڈز بنا کر خواتین کو فراہم کئے گئے۔ اروناچلم مروگناتھم کو ان کی کاوشوں کےعوض بھارت کے پدما شری ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
بھارت ویسے تو شائننگ انڈیا کی مہم بڑے زوروں سے چلاتا ہے لیکن آج بھی بھارت کے کئی علاقوں میں خواتین حیض کے دوران نہ صرف کپڑا استعمال کرتی ہیں بلکہ کئی دوردراز کے گائوں میں خواتین درختوں کے پتے اور راکھ کا بھی استعمال کرتی ہیں۔ کئی جگہوں پر حیض کے دوران خواتین کو گھر میں آنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ بھارت کے علاوہ پاکستان میں بھی شرم و حیاء صرف خواتین کا ہی زیور سمجھا جاتا ہے۔ اسی شرم کے مارے خواتین حیض کےدوران استعمال کئے جانے والے کپڑے کو دھونے کے بعد بھی چھپا کر رکھتی ہیں کہ کہیں کسی مرد کی نظر نہ پڑ جائے۔ جس سے کپڑے کو خشک ہونے کیلئے دھوپ نہیں ملتی اور اس میں جراثیم یوں ہی رہتے ہیں۔ ایسا کپڑا جو دھوپ میں نہ سکھایا گیا ہو وہ خواتین کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے اور ان مسائل کےحل کیلئے سینیٹری پیڈز استعمال کئے جاتے ہیں۔
اس فلم کی کہانی اکشے کمار کی رادھیکا اپٹے کے ساتھ شادی سے شروع ہوتی ہے۔ شادی کے بعد رادھیکا اپٹے حیض کےباعث اپنے گھر میں داخل نہیں ہوتی تو اکشے کمار کو پتہ لگتا ہے کہ اس کی بیوی کس حالت میں ہے اور اس تمام مرحلے کے دوران وہ ایک گندا اور عام کپڑا استعمال کرتی ہے جس پر اکشے نہ صرف حیرانگی کا اظہار کرتا ہے اور اپنی بیوی کوسینیٹری پیڈ لادیتا ہے۔
سینیٹری پیڈ پر لکھی قیمت دیکھ کررادھیکا بہت غصہ کرتی ہے اور اپنے شوہر کو پیڈز واپس کر دیتی ہے۔ یہیں سے شروع ہوتی ہے اکشے کمارکی پیڈ بنانے کی جدوجہد اور اس جدوجہد میں شرمساری اٹھانے کےبعد سونم کپور اکشےکمار کی بھرپور مدد کرتی ہیں۔
فلم کا سکرین پلے بھی آر بالکی نے ہی لکھا ہے۔ آر بالکی نے اکشے کمارکی اس جدوجہد کو اتنے بہترین انداز میں پیش کیا ہے کہ فلم اور اکشےکمار کی بہترین اداکاری آپ کو باندھ کر رکھتی ہے۔ کیوں کہ مردوں کو حیض اور خواتین کے مسائل پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لئے اگر کوئی مرد ایسی بات کردے تو خواتین شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہیں اورلوگ ایسی بات کرنے والے مرد کی جان کے ویری ہو جاتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں لکشمی یعنی اکشےکمار کیا کیا جتن کرتے ہیں یہ جاننے کیلئے آپ کو فلم پیڈ مین دیکھنا ہوگی، اگر سب کچھ میں نے بتا دیا تو فلم میں مزہ نہیں رہے گا۔ یاد رہے کہ فلم کی پاکستان میں نمائش پر مبینہ طور پر پابندی عائد کی گئی ہے.