شادی شدہ خواتین اکثر اپنےشوہر کی عادتوں سے نالاں نظر آتی ہیں خصوصا بچوں والے گھروں میں ماؤں کی شکایات کا گراف دن بدن بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اور یہ سارا نزلہ گرتا ہے بچارے خاوند پر جو چھٹی کے روز ایک مہمان کی طرح اپنی آؤ بھگت کروانے کا خواہشمند ہوتا ہے۔
اس کے برعکس مائیں خاوندوں کو گھر کے کاموں میں شریک کرنا چاہتی ہیں تو دوسری طرف کام کرنا تو درکنار خاوند حضرات گھر کے کاموں میں مزید اضافہ کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔اکثر گھرانوں میں میاں بیوی کی ایسی تکراریں ہفتے کے ساتوں دن سنائی دیتی ہے۔
خواتین سے جب پوچھا جاتاہے کہ ان کے کتنے بچے ہیں؟ تو اکثر خواتین بچوں کی گنتی میں اپنے خاوند کو بھی شامل کرلیتی ہیں کیونکہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ ان کا خاوند گھر کا سب سے بڑا بچہ ہے جسے انھیں سنبھالنا پڑتا ہے۔
زیادہ تر گھروں میں خواتین جھنجھلاہٹ اور ذہنی تناؤ کا شکار نظر آتی ہیں۔ لیکن کچھ امریکی ماؤں نے خواتین کی اس کیفیت کا ذمہ دار خاوند کو ٹھہرایا ہے ۔
ایک امریکی رسالے’ ٹوڈے مام ‘ کے حوالے سے شائع ہونے والے ایک جائزے میں ماؤں سے پوچھا گیا کہ ان کے ڈپریشن کی وجہ ان کے بچے ہیں یا خاوند؟
اس سوال کے جواب میں جائزے میں شامل7 ہزار ماؤں میں سے 46 فیصد ماؤں نے بتایا کہ انکے خاوند بچوں سے کہیں زیادہ ان کے لیے ذہنی تناؤ کا باعث ہیں۔ ایسی صورت میں ایک عام ماں کے ذہنی تناؤ کی شرح 10 میں سے8.5 تک پہنچ جاتی ہے۔
خواتین کا گلہ تھا کہ ان کے خاوند نہ تو بچوں کی دیکھ بھال میں ان کی مدد کرتے ہیں بلکہ خود بھی کسی بچے کی طرح فرمائشیں کرتے ہیں۔
ایک جاب کرنے والی خاتوں نے کہا کہ گذشتہ بیس برسوں سے وہ اپنے گھریلو اور بچوں سے متعلق ہر چھوٹے بڑے فیصلے خود ہی کرتی رہی ہیں۔ ان کے خاوند بچوں کے مستقبل کے حوالےسے فکر کرتے ہیں لیکن جس قسم کے چھوٹے موٹےمعاملات انھیں سلجھانے پڑتے ہیں ان کے خاوند کو اس کا احساس بھی نہیں ہے۔
تین تہائی ماؤں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر کی ساری ذمہ داریاں خود ہی نبھاتی ہیں جبکہ ہر 5 میں سے 1 ماں میں ڈپریشن اور جھنجھلاہٹ کا سبب وقت کی کمی بھی ہے جنھیں گھریلو اُمور کی انجام دہی میں اپنے خاوند سے کسی قسم کا تعاون حاصل نہیں ہوتا ہے۔
چونکہ خواتین اپنے شوہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے غصے کا اظہار نہیں کر پاتی ہیں اس لیے ان میں غصے اور جھنجھلاہٹ کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے۔
ماؤں کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان کے خاوند اس ذمہ داری کی ادائیگی میں ان کی مدد کریں۔
اس جائزے کی سربراہ ڈینا فلاینو کا کہنا تھا کہ”ایک سات برس کی عمر کا بچہ سات برس جیسی ہی حرکتیں کرتا ہے لیکن جب ایک 35 برس کا شخص 7 برس کا بچہ بن جائے تو پریشانی بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ سمجھدار ہوتا ہے۔”
اس جائزے میں کچھ ماؤں کے دلچسپ جوابات بھی شامل کئے گئے ہیں۔
”ایک خاتون نے کہا انھیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے گھر میں صرف وہ ایک ہی بالغ انسان ہے۔ ”
”مجھے اپنے خاوند کا خیال بچوں کی طرح ہی رکھنا پڑتا ہے مثلا انھیں کیا پہننا ہے ان کا موبائل فون، چابیاں، موزے حتیٰ کہ ان کے دفتری معاملات بھی انھیں یاد دلانے پڑتے ہیں۔”
” اپنے خاوند کے گھر واپس آنے پرمجھ پر ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے یوں لگتا ہے کہ پھر سے ایک ڈیوٹی شروع ہو گئی ہو۔۔”
اسی میگزین میں شائع ہونے والے ایک جائزے میں خاوندوں نے بھی یہ گلہ کیا تھا کہ وہ ہمیشہ سے کہیں زیادہ اپنی بیوی کی مدد کرتے ہیں لیکن اس کا انھیں کوئی صلہ نہیں ملتا ہے۔ انھیں اس کے بدلے میں صرف تھوڑی سی تعریف چاہیے ہوتی ہے جو کہ بیگمات کی طرف سے کبھی نہیں کی جاتی ہے۔