ویتنام کے ماوان نھٹ کا پاکستانی اشرافیہ کے ساتھ ایک عجیب تعلق‘ ایک عجیب رشتہ ہے لیکن ہم اس رشتے کو سمجھنے سے پہلے ماوان نھٹ کا پروفائل دیکھیں گے۔
ماوان نھٹ کا تعلق ویتنام کے صوبے ’’باک کان‘‘ سے تھا‘ یہ 1998ء میں بیمار ہوا‘ ڈاکٹروں کو چھوٹی آنت میں سوراخ نظر آیا‘ سرجری ضروری تھی‘ سرجری ہوئی اور ماوان تندرست ہو گیا‘ وہ زندگی میں دوبارہ مگن ہو گیا‘ وہ چھ دن نارمل رہتا تھا لیکن ہفتے کا ایک دن اس پر بھاری ہوتا تھا‘ اسے پیٹ میں شدید درد محسوس ہوتا تھا‘ وہ یہ درد مٹانے کے لیے پین کلر استعمال کرتا تھا‘ اسے دردکش ادویات سے کبھی آرام آ جاتا تھا اور کبھی یہ ادویات کام نہیں کرتی تھیں‘ یہ سلسلہ 19 سال جاری رہا‘ ان 19 برسوں میں پین کلرز اس کی زندگی کا حصہ بن گئیں‘ وہ جہاں جاتا تھا پین کلر ساتھ لے کر جاتا تھا‘ پین کلرز کے خوفناک سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں‘ یہ سائیڈ ایفیکٹس بھی اس کی زندگی کا جزو بن گئے‘ ماوان نھٹ کی عمر جنوری 2017ء میں 54 برس ہوگئی‘ یہ ایک صبح روڈ ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گیا۔
پولیس اسے اٹھا کر اسپتال لے گئی‘ اسپتال میں طبی معائنے کے دوران معلوم ہوا ماوان کے پیٹ میں بڑی آنت کے قریب چھ انچ لمبی قینچی موجود ہے‘ یہ قینچی 1998ء کے آپریشن کے دوران اس کے پیٹ میں رہ گئی تھی‘ یہ 19 برسوں میں آہستہ آہستہ اس کے چار بڑے اعضاء میں پیوست ہو گئی‘ یہ قینچی ماوان کو 19 سال تکلیف دیتی رہی مگر یہ اس تکلیف کو پین کلرز کے ذریعے ٹالتا رہا یہاں تک کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہوا‘ یہ اسپتال پہنچا‘ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور قینچی الٹرا ساؤنڈ میں نظر آگئی‘ یہ خبر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز تک پہنچی‘ حکومت کے نوٹس میں آئی اور وزارت صحت نے ہنوئی سے ڈاکٹروں کی ٹیم باک کان بھجوا دی‘ ماوان کا دوبارہ آپریشن ہوا‘ یہ آپریشن تین گھنٹے جاری رہا‘ ڈاکٹروں نے قینچی نکال لی‘ مریض کا پیٹ سیا اور ماوان صحت مند ہو گیا‘ یہ اب مکمل طور پر تندرست بھی ہے اور یہ دردکش ادویات کی محتاجی اور سائیڈ ایفیکٹس سے بھی محفوظ ہے‘ یہ ماوان نھٹ کی کہانی تھی‘ ہم اب ویتنام کے اس مظلوم شخص کے پاکستانی اشرافیہ کے ساتھ تعلق کی طرف آتے ہیں۔
ہم لوگ زندگی میں بے شمار غلطیاں‘ کوتاہیاں‘ جرم اور گناہ کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے زیادہ تر گناہوں‘ جرائم‘ کوتاہیوں اور غلطیوں پر پردہ ڈالے رکھتی ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں یہ غلطیاں‘ یہ جرائم اور یہ کوتاہیاں ’’واش آؤٹ‘‘ ہو جاتی ہیں‘ یہ ہماری ہارڈ ڈرائیو میں موجود رہتی ہیں بس اللہ تعالیٰ ان پر اپنے کرم‘ اپنے رحم کی چادر ڈالے رکھتا ہے‘ ہماری بے شمار غلطیاں‘ ہماری بے شمار کوتاہیاں ماوان نھٹ کی قینچی کی طرح ہمارے پیٹ میں پیوست رہتی ہیں‘ یہ قینچیاں ہمیں بیس بیس سال اندر سے کاٹتی رہتی ہیں‘ یہ ہمارے مختلف اعضاء کو تراشتی رہتی ہیں‘ یہ درد‘ بوجھ اور گراوٹ بن کر ہمیں تنگ کرتی رہتی ہیں‘ ہم بے وقوف لوگ اس درد کو ’’پین کلرز‘‘ سے ٹالتے رہتے ہیں‘ ہم عمر بھر ان پین کلرز کے سائیڈ ایفیکٹس بھی بھگتتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کو اگر اس دوران ہم پر حم آ جائے تو یہ ماوان کی طرح کسی حادثے کے ذریعے ہمیں پیٹ میں موجود قینچیوں کی اطلاع دے دیتا ہے اور قدرت اگر ہم سے مکمل لاتعلق ہو چکی ہو تو یہ قینچیاں کسی دن ہمیں اندر سے پوری طرح کاٹ دیتی ہیں‘ یہ ہمارے جگر‘ گردوں اور آنتوں کا قیمہ بنا دیتی ہیں اور ہم دیکھتے ہی دیکھتے عبرت کی قبر کا رزق بن جاتے ہیں‘ ہماری حکمران اشرافیہ کے پیٹوں میں بھی غلطیوں‘ کوتاہیوں‘ جرائم اور گناہوں کی بے شمار قینچیاں ہیں۔
یہ قینچیاں ان لوگوں کو روز تنگ کرتی ہیں لیکن یہ اس تکلیف کے منہ پر پین کلر کا کپڑا باندھ دیتے ہیں‘ یہ عمل ان لوگوں کو مزید بیمار کرتا جا رہا ہے‘ یہ لوگ قینچی‘ درد اور پین کلرز کے سائیڈ ایفیکٹس تین خوفناک تکلیفوں کا شکار ہیں‘ آپ ملک کے چار بڑے لیڈروں کا الٹرا ساؤنڈ کرا لیں‘ آپ کو آصف علی زرداری کے پیٹ میں کرپشن کی درجن بھر قینچیاں ملیں گی‘ سرے محل ہویا پھر سوئس اکاؤنٹس یہ کہانیاں محض کہانیاں نہیں ہیں‘یہ حقیقتیں ہیں اور آصف علی زرداری 25 سال سے ان حقیقتوں کو جوڈیشل سسٹم کے پین کلرز کھلا رہے ہیں‘ قینچی موجود ہے لیکن یہ قینچی ثابت نہیں ہو رہی‘ دنیا سندھ کی حالت سے بھی پوری طرح واقف ہے‘ کراچی میں نو سال سے کیا ہو رہا ہے‘ کہاں کہاں سے پیسہ لوٹا گیا‘ لوٹنے والوں کی رقمیں کون سا منی چینجر ہنڈی کرتا رہا اور کون سا پولیس افسر اس منی چینجر کو پکڑ کر دوبئی لے کر گیا اور منی چینجر کی گواہی پر کس کس وزیر کی کلاس ہوئی اور وہ کتنا کتنا فنڈ قیادت کے حوالے کرنے پر مجبور ہوا‘ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی‘ جنرل راحیل شریف نے کراچی میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کے دوران ببانگ دہل کہا تھا ’’ہم جانتے ہیں کون کہاں سے کتنا مال بنا رہا ہے اور یہ کس کے ذریعے کہاں جا رہا ہے‘‘ میٹنگ میں آصف علی زرداری بھی موجود تھے‘ وہ یہ ریمارکس سن کر خاموش رہے۔
خواجہ آصف جنرل راحیل شریف کے ساتھ بیٹھے تھے‘ خواجہ آصف نے جنرل راحیل شریف کے کان میں کہا ’’انسان کو زندگی میں کتنی دولت چاہیے ہوتی ہے؟‘‘ آرمی چیف نے سرگوشی میں امجد اسلام امجد کے مشہور ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ دہرایا‘ وارث کا مرکزی کردار چوہدری حشمت ایک جگہ کہتا ہے‘ کرپشن چلغوزوں کی طرح ہوتی ہے‘ ان سے ہاتھ تھکتے ہیں اور نہ ہی پیٹ بھرتا ہے‘ کرپشن کی یہ قینچیاں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے پیٹ میں ہیں اور میمو سکینڈل بھی ‘امریکا میں موجود ملٹری اتاشی نے امریکیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی پوری داستان ثبوتوں کے ساتھ پاکستان بھجوائی تھی‘ ثبوتوں کا صرف ایک فیصد حصہ باہر آیا‘ باقی 99 فیصد ثبوت آج بھی صندوقوں میں پڑے ہیں‘ یہ وہ ثبوت ہیں جو آصف علی زرداری کو پاکستان رہنے اور الیکشن لڑنے سے روک رہے ہیں‘ آپ الطاف حسین کی مثال بھی لے لیجیے‘ ان کا پیٹ قینچیوں سے اٹا پڑا ہے‘ یہ قینچیاں 30 برس موجود رہیں لیکن کسی ڈاکٹر کو نشاندہی کی ہمت نہ ہوئی لہٰذا مریض اب لاعلاج بھی ہو چکا ہے اور یہ آخری سانسیں بھی لے رہا ہے‘ عمران خان کے ماضی میں بھی بے شمار قینچیاں پوشیدہ ہیں‘ بنی گالہ کی زمین بے نامی تھی‘ یہ آف شور کمپنی کے مالک بھی رہے اور یہ اس کمپنی کو 20 سال چھپاتے بھی رہے‘ یہ شوکت خانم اسپتال کی رقم سے بیرون ملک سرمایہ کاری بھی کرتے رہے اور یہ بے شمار اخلاقی سکینڈلز کا شکار بھی رہے‘ یہ عمران خان کے ماضی کی قینچیاں ہیں‘ ان سے انکار ممکن نہیں اور آخر میں آتے ہیں میاں نواز شریف۔ لندن کے فلیٹس بہرحال حقیقت ہیں‘ یہ 1992ء میں خریدے گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے اور شریف فیملی درجن بھر آف شور کمپنیوں کی مالک ہے‘ یہ بھی سچائی ہے‘ یہ درست ہے یہ حقیقتیں قانونی طور پر ثابت نہیں ہو سکتیں اور میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو قانوناً مجرم ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے قطری خط ہوں‘ بینکوں کے ڈاکومنٹس ہوں یا پھر بین الاقوامی قوانین کی پین کلرز ہوں قینچی بہرحال 1992-93ء سے ان کے پیٹ میں موجود ہے‘ میاں صاحب عدالتوں سے بری ہو سکتے ہیں لیکن یہ اس حقیقت سے جان نہیں چھڑا سکیں گے‘ میاں نواز شریف ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ یہ ملک کے لیے بہت کچھ کر بھی رہے ہیں‘ ملک کے معاشی اشارے بھی اچھے ہیں‘ بلوم برگ اور آئی آر آئی بھی ان کی تعریف کر رہے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہو رہا ہے‘ دہشت گردی میں بھی 90 فیصد کمی آئی‘ بجلی کا نظام بھی بہتر ہوا‘ ملک کا انفراسٹرکچر بھی ٹھیک ہو رہا ہے اور ہمیں سی پیک کا کریڈٹ بھی بہرحال میاں نواز شریف کو دینا پڑے گا‘ یہ مخلص بھی دکھائی دیتے ہیں اور ملک میں ساڑھے تین برسوں میں کوئی میگا سکینڈل بھی سامنے نہیں آیا لیکن اس کارکردگی اور پرفارمنس کے باوجود پانامہ لیکس کی قینچی حکومت کے پیٹ میں موجود ہے اور یہ قینچی جب تک نکالی نہیں جائے گی میاں نواز شریف اس وقت تک اذیت میں رہیں گے‘ یہ اگر اس بینچ سے بچ بھی گئے تو بھی کیس اگلی عدالت میں چلا جائے گا‘ شریف فیملی کے خلاف درجنوں ثبوت موجود ہیں‘ یہ ثبوت گاہے بگاہے سامنے آتے رہیں گے اور یہ ہر بار شریف فیملی‘ حکومت اور قوم تینوں کی توجہ بٹاتے رہیں گے چنانچہ میری میاں نواز شریف سے درخواست ہے آپ ہمت کریں اور ماوان نھٹ کی طرح ایک بار تکلیف برداشت کر کے یہ قینچی نکلوا دیں‘ آپ ماضی کے بھوت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لیں‘ آپ نے اگر آج اس بھوت سے جان نہ چھڑائی تو یہ بھوت آپ کی اگلی نسل کو بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گا‘ یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔
میاں نواز شریف کو بہرحال وہ ایک فیصلہ کر لینا چاہیے جو ان کو ہزار تلخ فیصلوں کی ترشی سے نجات دلا دے‘ جو ان کا دامن دھو دے‘ جو ان کا ماضی کلیئر کر دے‘یہ آخر کب تک پین کلرز سے کام چلاتے رہیں گے۔