تحریر؛ سجاد علی شاکر
وطن عزیز پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں متعدد اقسام کے قدرتی ذخائر پائے جاتے ہیں، جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف ملکی ضروریات بلکہ ذخائر کو بیرون ممالک کو فروخت کر کے قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج متعدد بحران خاص کر بجلی اور گیس کے بحران میں گھرا ہوا ہے اورمستقبل میں ان سے نکلنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ سیاسی، معاشی، سماجی اور اخلاقی طور پر زوال و انحطاط کی جس سطح پر نظر آتا ہے ان حالات میں مذہبی و سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں ا ن اقدار کی بحالی کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر کاوشوں کو تیز کریں۔ ملک میں بجلی کا بحران تو عوام کی پریشانی کا سبب تھا ہی اب سردی میں اضافے کے ساتھ ساتھ گیس کا بحران بھی شدید ہوتا جارہا ہے۔
ملک بھر میں گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم دبائو کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ملک بھر کی صنعتوں سے وابستہ ہزاروں افراد کی معاشی سرگرمیاں بھی معطل ہوگئی ہیں جبکہ سیمنٹ، کھاد اور بجلی سمیت دیگر مصنوعات کا بھی بحران وقت کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے۔ بجلی و گیس کی طویل دورانیہ لوڈشیڈنگ نے شہریوں کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا، دونوں محکموں کے ستائے شہری سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بجلی اور گیس کی طویل دورانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ مساجد میں پانی کی قلت کی وجہ سے نمازی بھی وضو کی سہولیات سے محروم رہے۔ ملک میں اس وقت گیس کی پیداوارتین اعشاریہ چھ سے تین اعشاریہ آٹھ بلین کیوبک فٹ یومیہ ہے جبکہ گیس کی اوسطً طلب 6 بلین کیوبک فٹ ہے۔
اس اعتبار سے دو ارب چالیس کروڑکیوبک فٹ گیس کی یومیہ کمی ہے جسے پورا کرنے کے لئے صنعتوں، سی این جی ، اور گھریلو صارفین سمیت تمام عوام کوپریشان کیا جارہا ہے۔ گیس کی حالیہ کمی سے اندازے ہوتا ہے کہ اربوں ڈالر کے نئے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے باوجود آئندہ سال گیس کا بحران مزید پروان چڑھے گا۔پاکستان کے صوبے پنجاب میں گیس کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، گیس نہ ملنے کی وجہ سے سینکڑوں کارخانوں میں کام بند ہو چکا ہے اور ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کئی علاقوں میں گاڑیوں کے لیئے سی این جی بھی دستیاب نہیں۔ ایوان صنعت و تجارت لاہور کی طرف سے جاری کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق گیس نہ ملنے کی وجہ سے صوبے میں 13 سو سے زائد کارخانوں میں کام بند ہو چکا ہے اور روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے لگ بھگ 25 ہزار مزدور روزی کمانے سے محروم ہو چکے ہیں۔
حکومت گھریلو صارفین کے نام پر صنعتوں اور سی این جی اسٹیشنز کی گیس بند کر رہی ہے جبکہ گھریلو صارفین کو بھی گیس کم پریشر کے ساتھ دستیاب ہے جس سے نہ تو روٹی بنتی ہے اور نہ سالن بس پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ گیس کی ظالمانہ لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کے باعث گھریلو صارفین کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ۔ صبح ناشتہ کے وقت سات بجے اور شام کھانا پکانے کے وقت چھ بجے گیس کا پریشر ختم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے گھریلوخواتین کو ناشتہ اور شام کھانا تیار کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ حکمرانوں کو کوسنے دیتی ہیں جلی و گیس کے بحران اور امن و امان کی غیر یقینی صورتحال نے ملکی معیشت پر جمود طاری کر رکھا ہے۔موجودہ حکومت نے بھی قومی معیشت کو سہارا دینے کے لیے حسب معمول آئی ایم ایف پر انحصار کیالیکن صور تحال جوں کی توں ہے۔ حکومت کے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی وجہ سے متوسط طبقہ کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے باعث مہنگائی کی رفتار میں بہت تیزی آ گئی ہے۔
پاکستا ن وہ بدنصیب ملک بن چکا ہے جو ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود غربت، بے روزگاری، مہنگائی، توانائی کے بحران اور قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے حسب سابق کرنسی نوٹ چھاپنے پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ بیرونی ادائیگیوں اور وصولیوں میں عدم توازن کے باعث زر مبادلہ کے زخائر کم ترین سطح پر آ گئے ہیں جس سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ڈالر کی قیمت کو قابو میں رکھنے کے بلند و بانگ دعوے اور مصنوعی کوششیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں اور روپے کی قدر میں اضافہ نہیں ہو سکا۔تشویش کی بات تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے ٹکے اور افغان روپیہ کی قیمت پاکستانی روپیہ سے زیادہ مستحکم ہو چکی ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ذمہ دار سٹے باز ہیں لیکن وہ آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کا ذکر نہیں کرتے جس کی وجہ سے پاکستان پر قرض کا شکنجہ مزید سخت ہو گیا ہے۔روپے کی قدر میں کمی سے ملک میں مہنگائی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔معاشی بحران قومی سلامتی کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔سال نوع میں معاشی ماہرین مہنگائی ،لوڈشیڈنگ اور قرضوں کا بوجھ بڑھنے کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔اس سے پاکستان کی معاشی صورتحال خدشات سے کہیں زیادہ بد تر ہو سکتی ہے ۔پاکستان میں صرف جاگیردار اور سرمایہ دار ہی سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔اس درہم برہم نظام میں وہ تمام منفی عوامل موجود ہیں جو لوگوں کو ڈپریشن میں لے جا کر باغی بناتے ہیں۔ یہی باغی لوگ آسان طریقے سے دولت کے حصول کے لیے نت نئے انداز کے جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں۔جب عوام کی بڑی تعداد دو وقت کی روٹی سے محروم اور نوجوان بے روزگاری کا شکار ہو جائیں تو وہ بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کی آبادی اس وقت 18 کروڑ سے زائد ہو چکی ہے جس میں سے آدھی سے زیادہ آبادی 30 سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 12 کروڑ کے لگ بھگ لوگ کام کرنے کے اہل ہیں لیکن ان میں سے صرف 5 کروڑ لوگوں کے پاس ہی کسی نہ کسی سطح پر روزگار موجود ہے۔بے روزگار نوجوانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ موجودہ حالات میں ملکی و غیر ملکی صنعت کاروں اور تاجروں کو نہ تو امن مل رہا ہے اور نہ ہی گیس اور بجلی۔توانائی کے بحران نے صنعت کاروں کو بیرون ملک سرمایہ کاری کی طرف دھکیل دیا ہے۔حکومت ملکی معیشت کو مستحکم اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اگر تمام توجہ بجلی اور گیس بحران پر مرکوز کرے تو تمام مسائل اپنے آپ ہی حل ہو جائیں گے۔
تحریر ؛سجاد علی شاکر
sajjadalishakir@gmail.com 03226390480