counter easy hit

پاک فوج وطن کی شان۔۔۔!

پاک فوج کی قربانیوں کا صلہ فقط پروردگار دے سکتے ہیں۔ عوام اور حکومت کی بھر ہور حمایت پاک فوج کے عزائم مضبوط رکھتی ہے۔پاکستان اور پاک فوج ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزم ہیں۔ 1947ء میں آزادی کے بعد سے پاک فوج بھارت سے 4 جنگوں اورمتعدد سرحدی جھڑپوں میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دے چکی ہے۔ عرب اسرائیل جنگ ، عراق کویت جنگ اور خلیج کی جنگ میں حلیف عرب ممالک کی فوجی امداد کے لئے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ لڑائیوں کے علاوہ پاک فوج، اقوامِ متحدہ کی امن کوششوں میں بھی حصّہ لیتی رہی ہے۔ افریقی، جنوبی ایشیائی اور عرب ممالک کی افواج میں ا فواج پاکستان کا عملہ بطورِ مشیر شامل ہوتا ہے.پاکستانی افواج کے ایک دستے نے اقوام متحدہ امن مشن کا حصہ ہوتے ہوئے 1993ء میں موغادیشو، صومالیہ میں آپریشن گوتھک سرپنٹ کے دوران پھنسے ہوئے امریکی فوجیوں کی جانیں بچانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔پاکستان فوج 3 جون 1947ء کو برطانوی ہندوستانی فوج یا برٹش انڈین آرمی کی تقسیم کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔ تب جلد ہی آزاد ہو جانے والی مملکت پاکستان کو6 بکتر بند، 8 توپخانے کی اور 8 پیادہ رجمنٹیں ملیں، جبکہ تقابل میں بھارت کو 12 بکتر بند، 40 توپخانے کی اور21 پیادہ فوجی رجمنٹیں ملیں۔
1947ء میں غیر منظم لڑاکا جتھے، اسکاؤٹس اورقبائلی لشکر، کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست پر بھارت کے بزور قوت قبضہ کے اندیشہ سے کشمیر میں داخل ہوگئے۔ مہاراجہ کشمیر نے اکثریت کی خواہش کے خلاف بھارت سے الحاق کر دیا۔ بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔یہ اقدام بعد میں پاک بھارت جنگ 1947ء کا آغاز ثابت ہوا۔ بعد میں باقاعدہ فوجی یونٹیں بھی جنگ میں شامل ہونے لگیں، لیکن اس وقت کے پاکستانی بری افواج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل سر فرینک میسروی کی قائد اعظم محمد علی جناح کے کشمیر میں فوج کی تعیناتی کے احکامات کی حکم عدولی کے باعث روک دی گئیںاور پھر اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگ بندی کے بعد پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کا شمال مغربی حصہ پاکستان کے، جبکہ بقیہ حصہ بھارت کے زیر انتظام آ گیا۔
1947ء میں پاکستان کو صرف تین انفینٹری ڈویژن ملے، جن میں نمبر 7،8اور 9 ڈویژن شامل تھے۔10 واں، 12 واں اور 14 واں ڈویژن 1948ء میں کھڑا کیا گیا۔ 1954ء سے پہلے کسی وقت 9 وان ڈویژن توڑ کر 6 وان ڈویژن کھڑا کیا گیا، لیکن 1954ء ہی کے بعد کسی وقت اس کو بھی ختم کر دیا گیا، جس کی وجہ امریکی امداد کا صرف ایک بکتر بند یا آرمرڈ ڈ ویڑن اور 6 انفینٹری ڈویژن کے لئے مخصوص ہونا تھا۔پہلی بار پاکستانی فوج کی اقتدار میں شراکت جنرل ایوب خان کی 1958ء میں بغاوت کے ذریعے دیکھنے میں آئی۔انہوں نے کنونشن مسلم لیگ بنائی، جس میں مستقبل کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔60 کی دہائی میں بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے، اور اپریل 1965ء میں رن آف کچھ کے مقام پر ایک مختصر جنگی جھڑپ بھی لڑی گئی۔ 6 ستمبر 1965ء کی رات، بھارت نے پاکستان پر اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دیا۔ پاکستان نے حملہ نہ صرف روک کر پسپا کر دیا، بلکہ 1200 کلومیٹر بھارتی علاقہ بھی فتح کر لیا۔ پاکستانی فضائیہ اور توپخانے کی لڑائی کے دوران امداد نے پاکستانی دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگ بندی عمل میں آئی اور معاہدہ تاشقند کا اعلان ہوا۔ بھارتی مفتوحہ علاقہ واپس کر دیا گیا۔ لائبریری آف کانگریس کے ملکی مطالعہ جات ،جو امریکی وفاقی تحقیقی ڈویژن نے کیے، کے مطابق جنگ غیر نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔1968ء اور 1969ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے بعد انہوں نے صدر پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، اورجنرل یحییٰ خان نے اقتدار 1968ء میں سنبھال لیا۔1966ء سے 1969ء کے درمیان 18،16 اور 23 ڈویژن کھڑے کئے گئے۔ 9 ویں ڈویژن کا دوبارہ قیام بھی اسی عرصے میں عمل میں آیا۔جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں، مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے ہاتھوں روا رکھی گئی مبینہ سیاسی،معاشرتی اورمعاشی زیادتیوں کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جو بتدریج خلاف قانون بغاوت میں بدل گئی۔ان باغیوں کیخلاف 25 مارچ 1971ء کو فوجی کاروائی کی گئی، جسے آپریشن سرچ لائٹ کا نام دیا گیا۔ منصوبے کے مطابق بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد تمام فوجی اور سیاسی بغاوت پر قابو پایا جانا تھا۔ مئی1971ء کو آخری بڑے مزاحمتی شہر پر قابو پانے کے بعد آپریشن مکمل ہوگیا۔ آپریشن کے بعد بظاہر امن قائم ہو گیا، لیکن سیاسی مسائل حل نہ ہو سکے۔ آپریشن میں مبینہ جانی نقصانات بھی بے چینی میں اضافے کا باعث بنے۔بد امنی دوبارہ شروع ہوئی، اور اس دفعہ بھارتی تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلوں نے لڑائی کی شدت میں اضافہ جاری رکھا، تاآنکہ بھارتی افواج نے نومبر 1971ء میں مشرقی پاکستان میں دخل اندازی شروع کر دی۔ محدود پاکستانی افواج نے نا مساعد حالات میں عوامی تائید کے بغیر اس جارحیت کا مقابلہ جاری رکھا۔ مغربی پاکستان میں پاکستانی افواج کا جوابی حملہ بھی کیا گیا۔ لیکن بالآخر 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں محصور پاکستانی افواج کو لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی قیادت میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔18 دسمبر 1971ء کو بھٹو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس، جہاں وہ مشرقی پاکستان پر بھارتی جارحیت کے خلاف حمایت حاصل کرنیکی کوشش کر رہے تھے، سے بذریعہ خصوصی پی آئی اے کی پرواز واپس بلائے گئے، اور 20 دسمبر 1971ء کو انہوں نے بطور صدر پاکستان اور پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اقتدار سنبھال لیا۔1970ء کی دہائی کے وسط میں سول حکومت کے ایما پر بلوچستان میں غیرملکی اشارے پر بدامنی پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف فوجی کاروائی بھی کی گئی۔1977ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے عوامی احتجاج اور مظاہروں کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ذوالفقار علی بھٹو کو ایک سیاستدان نواب محمد احمد خاں قصوری کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر عدالت نے پھانسی کی سزا دی۔ جنرل ضیاء الحق موعودہ 90 دن میں انتخابات کروانے میں ناکام رہے، اور 1988ء میں ایک طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے تک بطور فوجی حکمران حکومت جاری رکھی۔ 1980ء میں پاکستان نے امریکہ، سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ افغان مجاہدین کو جارح روسی افواج کے خلاف ہتھیاروں، گولہ بارود اور جاسوسی امداد جاری رکھی۔پہلی خلیجی جنگ کے دوران پاکستان نے ممکنہ عراقی جارحیت کے خلاف سعودی عرب کے دفاع کے لئے افواج فراہم کیں۔ پاکستان کی فوج دنیا کی چند بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ پاک فوج پاکستان کا اصل ایٹم بم ہے۔، تحریرطیبہ ضیا چیمہ

بشکریہ نوائے وقت

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website