ایک جانب چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت وفاقی حکومت نے پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی سرگرمیاں تیز کرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے غرض سے مارچ 2018 تک گوادر پورٹ پر تعمیرات کے آغاز کا فیصلہ کر لیا، تو وہیں دوسری جانب تجارتی عمل کو مزید آسان بنانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی یوان کو استعمال کرنے پر بھی غور شروع کردیا ہے۔حال ہی میں وفاقی وزیر برائے ترقی اور منصوبہ بندی احسن اقبال نے (سی پیک) کے 30-2017 کے طویل مدتی پلان (ایل ٹی پی) کے آغاز کے موقع پر کہا تھا کہ یوان کے استعمال سے پاکستان کو نقصان نہیں، بلکہ فائدہ ہوگا اور اس بارے میں مسلسل جائزہ لیا جارہا ہے۔احسن اقبال نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ اگر مستقبل میں ایسا ہوا تو پاکستان میں تب بھی اس کی اپنی کرنسی ہی استعمال ہوگی، تاہم چین کی خواہش ہے کہ دوطرف تجارت کے لیے ڈالر کے بجائے ان کی اپنی کرنسی یوان کو استعمال کیا جائے۔ایسے وقت میں جب حکومت سی پیک کے طویل مدتی پلان کو عوام کے سامنے پیش کرچکی ہے، تو یہ سوال بھی ابھر کر سامنے آیا ہے کہ آیا ڈالر کو چینی کرنسی میں تبدیل کرنا ملکی معیشت کے لیے کتنا مفید ثابت ہوسکتا ہے؟
اسی حوالے سے معاشی امور کے ماہر فرحان بخاری کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ ایک اچھا قدم ہوگا، لیکن ہمیں اسے کسی بڑے انقلاب کے طور پر نہیں لینا چاہیے کیونکہ باقی ممالک بھی تجارت کے لیے اسی طرح کے اقدامات کرتے رہتے ہیں، لہذا یہ ایک عام سی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان چینی کرنسی کو استعمال کرنے کا حتمی فیصلہ کرتا ہے تو یہ کرنسی دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو مؤثر بنانے میں کافی مدد گار ہوگی، کیونکہ پھر صرف روپے کو ڈالر کے بجائے براہ راست یوان میں تبدیل کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ چین اس وقت دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے اور اس تناظر میں پاکستان یا پھر کوئی بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔فرحان بخاری نے یہ بھی بتایا کہ یوان کے استعمال سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہم بچت بھی کرسکیں گے، کیونکہ جب چین کے ساتھ براہ راست تجارت ہوگی تو اس سے پاکستان کے اضافی اخراجات میں کچھ حد تک کمی آئے گی۔ان کے بقول وہ ممالک جن کے پاس براہ راست ایکسچین ریٹ موجود نہیں وہ بھی اسی طریقے کو استعمال کرتے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا آپ سمجھتے ہیں یوان کو استعمال میں لانا پاکستان کی اقتصادی خودمختاری کی خلاف ورزی بھی ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بظاہر تو خودمختاری اسی وقت ختم ہوچکی تھی جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں ڈالر کی اجازت دی، لہذا اگر کسی کو اس پر تشویش ہے تو اس کی وجہ صرف ایک ایوان کو قرار دینا نامناسب ہوگا۔فرحان بخاری نے کہا کہ ‘آج تو حالات ایسے ہیں کہ شادی بیاہ کی تقاریب میں روپے کیساتھ ڈالرز سلامی کے طور پر دیے جاتے ہیں’۔سی پیک منصوبے کے طویل مدتی پلان پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس میں شفافیت کے عنصر پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے، تاکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا جو خواب ہے وہ پورا ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ احسن اقبال نے عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کیا، مگر ابھی بھی خدشات اپنی جگہ موجود ہیں اور انہیں دور کرنے کے لیے اس منصوبہ کی اصل تفصیلات کو عوام کے سامنے لانا بہت ضروری ہے۔فرحان بخاری نے مزید کہا کہ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے کہ پاکستان کی معیشت سی پیک میں شامل تمام منصوبوں کو برداشت نہیں کرپائے گی اور ہوسکتا ہے کچھ منصوبوں کو ختم کرنا پڑ جائے۔خیال رہے کہ احسن اقبال 54 ارب ڈالر مالیت کے پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے کی نگرانی کررہے ہیں۔
سی پیک کے اس منصوبے سے پاکستان کو نہ صرف دنیا میں اعلیٰ مقام ملے گا بلکہ ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدن پاکستان کی معیشت پر شاندار اثرات بھی ڈالے گی۔پاکستان میں معاشی انقلاب برپا کرنے والا یہ منصوبہ جہاں ایک شاہراہ ریشم کو جنم دے گا جو تجارت کو محفوظ، آسان اور مختصر بنائے گی، وہیں اس کے ساتھ ہی گوادر کو ایک انتہائی اہم مقام میں تبدیل کر دے گا جس کی جستجو ترقی یافتہ ممالک کرتے ہیں۔سی پیک کے تحت گوادر میں ہی ایکسپریس وے کی تعمیر سمیت بلوچستان میں توانائی کا بھی ایک بڑا منصوبہ شامل ہے جبکہ کئی منصوبوں پر ملک کے دیگر صوبوں میں کام کیا جائے گا۔واضح رہے گذشتہ روز حکومت نے سی پیک کے طویل مدتی پلان کا بھی اجراء کیا تھا جو پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں اور معاشرے میں چینی کمپنیوں اور تہذیب کی وسیع تر رسائی کی پیش گوئی کرتا ہے۔26 صفحات کا طویل مدتی پلان تعاون کے 7 وسیع حصوں پر مشتمل ہے، جہاں دونوں اطراف تین مرحلوں میں ایک دوسرے سے شراکت کی جائے گی، جس کا پہلا مرحلہ 2020 اس کے بعد دوسرا مرحلہ 2025 جبکہ تیسرا مرحلہ 2030 تک مکمل ہوگا۔