پیرس : اکثر لوگ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان گرم جوشی کے فقدان کی ایک وجہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ’عقابی رویے‘ کو بھی ٹھہراتے ہیں بھارت اور پاکستان میں بڑی اکثریت سے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد توقعات تو یہ تھیں کہ کم از کم چار سال تک دونوں ممالک میں حکمرانی کرنے والے دائمی طور پر خراب تعلقات میں بہتری کی کسی مضبوط کوشش کا آغاز کریں گے۔ لیکن افسوس کہ پچھلے ایک سال میں ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تعطل اگر طویل عرصے تک جاری رہتا ہے تو گرمجوشی سے زیادہ بہتر ہے۔اس میں نہ بھارت کا برا ہے اور نہ پاکستان کا کیونکہ جب بھی تعلقات میں بہتری لانے کی کوششیں شروع ہوتی ہیں اسی وقت اس کے جدی پشتی مخالفین بھی متحرک ہو جاتے ہیں۔ پھر خرابی آتی ہے اور ہم پھر کئی کئی سال پیچھے چلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں اکثر لوگ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان گرم جوشی کے فقدان کی ایک وجہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ’عقابی رویے‘ کو بھی ٹھہراتے ہیں۔ انھیں پاکستان میں ایک سخت گیر موقف رکھنے والے ہندو قوم پرست کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ جب سے اقتدار میں آئے ہیں یہاں لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انھوں نے اپنی شرائط اور اپنی مرضی سے پاکستان کو ’لفٹ‘ کرانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
پاکستان کے سابق سفارت کار کہتے ہیں کہ ایسی صورت حال میں تالی ایک ہاتھ سے ہرگز نہیں بج سکتی۔امید تھی کہ حکومتوں کی سطح پر رابطوں میں اضافوں کے علاوہ تجارت کے امکانات سے بھی لوگوں کے فائدے کے لیے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا دونوں ممالک میں مضبوط حکومتوں کو مضبوط فیصلوں سے تعبیر کیا جا رہا تھا اور امید تھی کہ حکومتوں کی سطح پر رابطوں میں اضافوں کے علاوہ عوامی میل ملاپ بھی بڑھے گا اور تجارت کے امکانات سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا۔ اس میں بھی بات جوں کی توں ہی ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے صحافیوں کے مودی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر پوچھے گئے ایک سوال کے رد عمل میں کہا کہ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک بشمول بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ ’وزیر اعظم نواز شریف نے بھارتی ہم منصب کی افتتاحی تقریب میں بھی شرکت کی۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع نہیں ہو سکا۔ یہ نکتہ بھارتی سیکریٹری خارجہ کے اس سال مارچ دورے کے دوران اٹھایا گیا تھا۔‘
عوامی سطح پر نیت خواہشات کے اس جیسے بیانات کے برعکس ایک قدم آگے دو قدم پیچھے والی روش اب بھی بظاہر اپنائی جا رہی ہے۔ سیکرٹری خارجہ مذاکرات کے موخر ہونے کے بعد بھارتی سیکریٹری ایک دورے پر اسلام آباد آئے بھی لیکن اس سے بھی دو طرفہ تعلقات میں بہتری میں کوئی خاص تیزی نہیں آ سکی۔اس کے بعد دونوں ملک کہاں کھڑے ہیں کسی کو معلوم نہیں اگرچہ حکومتِ پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ منعقد کروا کر ملک میں خراب امن عامہ کی صورت حال کے تاثر کو رد کرنے کی کوشش کی ہے لیکن فی الحال آئندہ برس متوقع سارک کانفرنس بھی دہشت گردی کے جاری واقعات کے تناظر میں مشکوک دکھائی دے رہی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی پاکستانی پرچم لہرانے پر کشیدگی کی اطلاعات ہیں لیکن جو بات پاکستان میں ریاستی سطح پر گذشتہ کچھ عرصے میں زیادہ زور و شور سے کہی جانے لگی ہے اور انتہائی تشویش ناک ہے، اور وہ ہے پاکستانی فوج کا بھارتی خفیہ ایجنسی را کا نام لے کر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام۔ افغانستان سے پاکستان کے تعلقات میں بہتری کی وجہ سے بھارت کے کردار کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کوئی کم نہیں ہوئے ہیں اور کہیں نہ کہیں پس منظر میں زندہ ہیں۔ اسے کوئی اچھا شگون نہیں سمجھا جا رہا۔
دوسری جانب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی پاکستانی پرچم لہرانے کے معاملے پر کشیدگی کی اطلاعات ہیں۔ کئی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر نریندر مودی ایک ترقی یافتہ بھارت دیکھنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے آپ کو ماضی سے آزاد کرنا ہو گا اور سیاسی تنگ نظری ترک کرنا ہو گی۔ مودی کا ایک سال پاکستان کے حوالے سے کوئی زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ اس اعتبار سے اگر اسے ایک اور ضائع سال کہیں تو شاید غلط نہیں ہو گا۔