لاہور (ویب ڈیسک) ایک پاکستانی نجی ٹیلی وژن چینل کے ایک پروگرم میں مہمان ناصر خان جان کے ساتھ میزبان اینکر کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ متعدد اینکرز نے میزبان کے رویے کو انتہائی غیر مہذب اور تضحیک آمیز قرار دیا ہے۔پیر چھ مئی کو سوشل میڈیا پر نامور خاتون صحافی رافعہ اعوان ڈی ڈبلیو کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں نجی ٹی وی چینل کے اینکر محمد شعیب اپنے پروگرام میں بلائے گئے مہمان ناصر خان جان سے اس طرح سے سوالات اور بحث کرتے دکھائی دیے، جس سے ایسا تاثر مل رہا تھا کہ جیسے وہ ان کی تضحیک کرنا چاہ رہے ہوں۔ اس پروگرام کا کلپ سما نیوز کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کیا گیا۔ کلپ میں مرد میزبان ناصر خان جان کے موقف بار بار رد کر رہے ہیں اور مہمان کو اپنی بات مکمل کرنے کا موقع نہیں دے رہے۔ اس کلپ میں ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے محمد شعیب اپنے مہمان کو غلط ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہوں۔ سوشل میڈیا کے صارفین کی ایک بڑی تعداد میزبان محمد شعیب کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔سینیئر صحافی اور پروگرام کیپٹل ٹاک کے اینکر پرسن حامد میر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’محمد شعیب جیسے اینکرز بغیر کسی بنیادی تربیت کے ٹی وی پروگرام کر رہے ہیں۔ میں ایسے ٹی وی اینکرز کو صحافی نہیں مانتا۔‘‘ ایک اور معروف ٹیلی وژن اینکر اجمل جامی نے بھی مذکورہ اینکر کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اینکرکا جذبات پر قابو نہ رکھ پانا، بلائے گئے مہمان کو بار بار نیچا دکھانے کی کوشش کرنا دراصل بنیادی تربیت اور اخلاقیات کی کمی کا نتیجہ ہے۔ سماء ٹی وی کی ویڈیو دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ اینکر کی اونچی آواز سے اس کی اپنی کہی بات کی نفی ہوتی رہی کہ میں ایک سینس ایبل یعنی سمجھدار انسان ہوں۔‘‘ نیوز اینکر عائشہ خالد کے مطابق، ’’اینکر بھائی صاحب کو موقع مل گیا پارسا بننے کا، اتنا ہی بُرا ہے یہ انسان تو کیوں مہمان بنایا؟ ریٹنگ کے لیے؟ یا اُس کی بے عزتی کر کے اپنے آپ کو بہتر انسان ثابت کرنے کے لیے؟‘‘اینکر بھائی صاحب کو موقع مل گیا پارسا بننے کا،،، اتنا ہی بُرا ہے یہ انسان تو کیوں مہمان بنایا ؟؟؟ریٹنگ کھینچنے کے لیے ؟؟؟یا اُس کی بے عزتی کر کے اپنے آپ کو بہتر انسان ثابت کتنے کے لیے ؟؟؟ دی نیوز کے کالم نگار منیب قادر نے بھی ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں پروگرام کے میزبان کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا: ’’اس اینکر کا لہجہ اور غیر اخلاقی رویہ دیکھ کر مجھےبہت افسوس ہوا۔ خدارا اسے صحافی نہ پکارا جائے، یہ دونوں صحافی پیسوں کے لیے کچھ بھی کریں گے؟ کچھ دن قبل میں انہی دو اینکرز سے پلوامہ حملے پر بات کر رہا تھا۔ ان کا تو وطیرہ ہی یہی ہے۔ مجھے بات مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر خاص و عام کے ساتھ ان کا یہی رویہ ہے۔‘‘ ناصر خان جان سوشل میڈیا پر مشہور ہیں اور فیس بُک اور یوٹیوب پر ان کی ویڈیوز بہت دیکھی جاتی ہیں۔ پاکستانی اینکر محمد شعیب کے اس رویے کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ الوینہ ساجد لکھتی ہیں، ’’ویسے تو ریٹنگ کے سب ہی بھوکے ہیں۔ لیکن سماء والے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ سماء ایسی اوچھی حرکت پہلے بھی کر چکا ہے۔‘‘ احمد ہمایوں رشید کا کہنا ہے، ’’ایسے غیر پیشہ وارانہ اینکر کو فوراﹰ ادارے سے نکال دینا چاہیے۔‘‘ حریم اشعر نے لکھا،’’ اینکر نے تنخواہ نہ ملنے کا غصہ ناصر جان پر نکالا ہے۔‘‘ ایک اور فیس بُک صارف مریم نادر لکھتی ہیں، ’’یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ان دونوں اینکرز نے ایسا متعدد بار کیا ہے۔ اس سے قبل ایک ڈاکٹر کو پروگرام میں بلا کر ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ جس پر وہ ڈاکٹر بے بس دکھائی دیے۔ اس معاملے پر بھی سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی گئی تھی اور اب ناصر خان جان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘‘ بلاگر اور مصنف اظہر مشتاق نے اپنی فیس بُک وال پر لکھا، ’’دنیا بھر میں میڈیا کی مدد سے قومیں اپنی ساکھ بناتی اور بگاڑتی ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اخلاقیات سے عاری ایسے اینکرز پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔گلے میں آزاد صحافت کی گھنٹی باندھ کر آخر کب تک شعیب جیسے اینکر معصوم لوگوں کی تذلیل کرتے رہیں گے۔ بالآخر یہ ہم سب کی عزت کا مسئلہ ہے۔‘‘ ایک اور فیس بُک صارف وسیم خٹک نے مذکورہ اینکر کو ’پرچی اینکر‘ کہا اور اسے ادارے سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ فحاشی پہ نہایت بد تمیزی سے بات کرتے اینکر کے سامنے ناصر جان خان مجھے شیکسپیئر جیسا معلوم ہوتا ہے۔ جب اینکر بے قابو ہورہا تھا تو ساتھی اینکر پر لازم تھا کہ وہ ‘انٹر وین’ کرتیں یا پروڈیوسر صاحب کان میں کچھ فرماتے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا،بظاہر معاملہ “سستی شہرت” کا ہے۔بہتر ٹریننگ اور بنیادی صحافتی اخلاقیات کا پاس ہوتا تو اسی موضوع کو بہت بہتر طریقے سے کنڈکٹ کیا جا سکتا تھا۔ ٹی وی اینکر اجمل جامی نے ٹوئٹر پر پر بھی اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا: ’’جب اینکر بے قابو ہورہا تھا تو ساتھی اینکر پر لازم تھا کہ وہ ’دخل‘ دیتیں یا پروڈیوسر صاحب کان میں کچھ فرماتے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، بظاہر معاملہ ’’سستی شہرت‘‘ کا ہے۔ بہتر تربیت اور بنیادی صحافتی اخلاقیات کا پاس ہوتا تو اسی موضوع کے مناسب ساتھ بہتر طریقے سے برتاؤ کیا جا سکتا تھا۔