پروفیسر ڈاکٹرشبیر احمد خورشید
پاکستان ہمیشہ افغانستان کا خیر خواہ رہا ہے۔مگر افغانستان کے وہ لوگ جو ہمیشہ ہندوستان کے پروپیگنڈے کا شکار رہے ہیں انہوں نے کسی ایک موقع پر بھی پاکستان کی خیر خواہی نہیں کی ۔یہ بات پاکستان کے لوگوں کے سامنے آزادی چند دن بعد ہی آئی جب ستمبر 1947 میں پاکستان نے اقوا مِ متحدہ کی رکنیت کی درخواست دی تو افغانستان کی حکومت نے پاکستان کی اقوام ِمتحدہ میں شمولیت کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ساری دنیا جانتی ہے کہ افغان حکومت کبھی بھی پاکستان کی خیر خواہ نہیںرہی او روہ ہر موقع پر ہندوستان کی حمائتی رہی تھی۔ افغانستان کو روسی قبضے سے چھڑانے کے بعد اور طالبان حکومت کے قیام کے بعدجب امریکہ نے پورے یورپ اور ایک دو ایشیا کے 46 ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیل کانٹے سے لیس ہو کران نیٹو ممالک نے جو کھیل کھیلا اور پوری قوت کے ساتھ افغانستان کے اس کمزور ترین ملک پردھاوا بولا اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں ڈھونڈنے کے باوجود نہیں ملے گی۔طالبان کی تین سالہ حکومت کا خاتمہ کر کے ان در ندوں نے حامد کرزئی جیسے نکمے اور پاکستان کے نمک حرام کو کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنے کو بیٹھا کر طالبان کا صفایا کرنا شروع کر دیااورافغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملوں کے ذریعے تباہی کا ایک انمٹ سلسلے کا آغاز کر کے پاکستان کی معیشت کو بھی تباہی کے گڑھے پرلا کھڑا کیا اس کھیل میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار پرویز مشرف کا بھی ایک اہم کر دار رہا تھا۔
دوسری جانب بپھرے ہوے اس وقت کے طالبان مجاہدین جن کی آبیاری ہم نے امریکہ کی آشیرواد سے کی تھی کو پاکستا کی اسٹابلشمنٹ سے دور کرتے ہوے انہیں سر ز مین کا دشمن بناکر ہماری تباہیکے آثار پیدا کرا دیئے گئے۔جو ہماری غلط پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان کے بھی مخالف بن گئے۔یہ بات ہر با شعور پاکستانی جانتا ہے کہ یہ لوگ ان ہی لوگوں کی اولادہیںجنہوں نے ہر بری گھڑی میں اور ہر ہندوستانی جارحیت کے خلاف ہمیشہ پاکستان کی عملی مدد کی اور کبھی کوئی معاوضہ بھی ہم سے طلب نہیں کیا۔مگر آج ان لوگوں کو پاکستان اور پاکستان کے اداروں کا بین الاقوامی انٹیلی جینس ایجنسیوں نے مل کر دشمن بنا کر ہی دم لیا ہے۔ اب یہ لوگ جب اور جہاں موقع ملتا ہے ہمارے دشمنوں کے ساتھ مل کرہمیں اور ہمارے اداروں، ملک کی تنصیبات اور تعلیمی اداروں کو چن چن کا نشانہ بنا رہے ہیں۔جو ہر مسلمان اور ہر پاکستانی کے لئے انتہائی تکلیف کا با عث ہے۔مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے اپنے لوگ بھی ان دہشت گردوں کا کسی نہ کسی بہانے ساتھ دے رہے ہیں۔
حالیہ چارسدہ یونیورسٹی حملے کے ملزمان کے تمام ترتانے بانے افغانستان سے ہی جڑے ملتے ہیں۔اس سفاکانہ کاروئی کے پیچھے پاکستانی طالبا جن کو افغانستان کی حکومت نے ہندوستان کی حمایت سے پاکستان کے خلاف افغانستان میں سے ہی کھُل کھیلنے کے مواقعے فراہم کئے ہوے ہیں ۔جنہوں پاکستان کے مستقبل کے معماروں کی جان لینے میں بالکل دریغ نہیں کیا اور جو اپنے آپ کا اسلام کے نام نہاد سپاہی ہونے کے دعویدار ہیں۔ان کفر کے ایجنٹوں نے اس بزدلانہ کاروائی میں 20سے زیادہ قیمتی جانوں کو ان کے پیاروں سے ہمیشہ کے لئے جدا کر کے اپنی سفاکی کا بھر پور مظاہرہ کر دکھایا ہے اور ان سے دو گناہ زیادہ افراد کو زخمی کر دیا گیا۔حکومتِ پاکستان نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ کئی دنوں میں مرتب ہونے کے بعد افغانستان کی حکومت کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر اس معاملے میںوضاحت کیلئے کہاہے اورافغانستان سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ چارسدہ حملے کے ملزمان کے خلاف کاروائی کرے۔
کیونکہ باچاخان یونیورسٹی پر حملے کے منصوبہ سازوں نے اس کاروائی کے لئے افغانستان کی سر زمین اور افغان ٹیلی کمیو نیکیشن نیٹ ورک کااستعمال کیا تھا ۔اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان نے افغان ناظم الامور عبدالالناصر یوسفی کو دفترِ خارجہ طلب کر کے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوے اس واقعے پر احتجاج کیا ہے ۔جبکہ واقعہ کی معلومات سے متعلق رپورٹ پہلے ہی افغان حکومت کے حولے کی جا چکی ہے۔افغانستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہیرے میںلانے کے لئے اسلامآباد سے تعاون کیا جائے۔پاکستان کے اس مطالبے سے پہلے ہی افغان حکومت اس بات سے انکار کرتی رہی ہے کہ یہ حملے افغان سر زمین سے ہوے ہیں۔
پاکستان نے کبھی بھی افغانستان میں انتشار پھیلانے یا بڑھانے کی حمایت نہیں کی ہے۔بلکہ ہمیشہ افغانستان کے لئے خیر خواہی کے جذبات کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔مگر افغان پالیسی سازوں نے ہمیشہ ہی پاکستان کی مخالفت میں اپنے آپ کو ہمارے حقیقی دشمنوں سے بھی کئی ہاتھ آگے رکھا ہے۔ جو کہ اس مسلمان ملک کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے۔جبکہ پاکستان بلا کسی معاوضے کے پاکستان کی بندرگاہ سے افغانستان کے مالِ تجارت کو راہ داری کیبھی سہولتیں دیتا رہا ہے۔ اور دے رہا ہے۔جس پر اس کی معیشت اور تجارت کا انحصار ہے۔آج بھی افغانستان ہمارے خلاف ہمارے دشمنوں کا بلوچستان کے حوالے سے آلہِ کار بنا ہوا ہے۔یہ ان کی پاکستان کے خلاف احسان فراموشی نہیں ہے تو اس کو اور کیا نام دیا جائے؟؟؟
پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ہندوستان بھر پور طریقے پرافغان سرزمین کا استعمال ایک مدت سے کرتا چلا آرہا ہے۔پاکستان کے جتنے بھی علاقوں میںاورجتنی بھی دہشت گردی کی کاروائیاں ہوتی رہی ہیں وہ چاہے طالبان کے ہاتھوں ہوئیں یا انکے ایجنٹون اور ان کے نمک خواروں کے ہاتھوں فاٹا اور بلوچستان میں ہوئیں ۔ اُن تمام کاروائیوں کا مرکز و محور افغان سر زمین ہی رہی ہے۔مگر افغان حکومتوں نے ہندوستانی را کو کبھی بھی پاکستان کے خلاف کار وائیوں سے رُک جانے کو نہیں کہا۔ جبکہ پاکستان ہمیشہ افغان مفادات کا خیال رکھتا رہا ہے اور افغانستان میں امن و سلامتی کا خواست گار رہا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج چین جیسا بڑا ملک اور دنیا کے دوسری سُپر طاقت بھی یہ کہہ رہی ہے کہ ”افغان امن میں پاکستان کا منفرد کردار ہے”اور اس عمل میں ہم آہنگی کیلئے روس،ہندوستان اور ایران سے رابطے بڑھائیں گے۔ یہ باتیں چینی وزیر خارجہ نے بیجنگ میںافغانستان کے وزیرِ خارجہ سے ایک ملاقات کے دوران کہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات ہی افغانستان میں امن لا سکتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کو چینی وزیر خارجہ نے واضح پیغام یہ دیا ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں جو کاروائیاں ہورہی ہیں اُن پر افغانستان پاکستان سے پر امن مذاکرات کرے ا ورافغان سر زمین سے پاکستا ن پر کسی بھی جانب سے کی جانے والی دراندازی کا خاتمہ کرنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے۔
پروفیسر ڈاکٹرشبیر احمد خورشید
shabbir23khurshid@gmail.com