تحریر : محمد شاہد محمود
پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرنیوالی مودی سرکار کا اصل چہرہ جھوٹ ایک بار پھر بے نقاب ہوا تاہم بھارتی میڈیا کے خبر بریک کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر بھارتی کوسٹ گارڈ اپنے اعترافی بیان سے مکر گئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 31دسمبر کوبھارت نے دعویٰ کیاتھاکہ بارودی مواد سے بھری پاکستان کی کشتی کھلے سمندر میں ازخود تباہ ہوگئی لیکن اب بھارتی کوسٹ گارڈ نے پاکستانی کشتی تباہ کرنے کا اعتراف کرلیا۔بھارتی کوسٹ گارڈ کے ڈی آئی جی نے کہاکہ رات کو ہی بتادیاتھاکہ کشتی اْڑادی ، کشتی میں سوارپاکستانیوں کوبریانی نہیں کھلاناچاہتے تھے ، خود ہی اْڑانے کا حکم دیا۔چھ سال قبل ممبئی میں ہونے والے واقعہ کو بھارت ابھی تک نہیں بھول سکا اور اب سال نو کے موقع پر بھارت نے پاکستان کو بدنام کرنے اور عالمی برادری کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ایک ناکام کوشش کی تھی۔ بھارتی وزارت دفاع نے الزام عائد کیا کہ پاکستان اور بھارت کی سمندری سرحد کے قریب بحیرہ عرب میں ایک مشکوک کشتی دھماکے سے تباہ ہو گئی۔ بھارتی بحریہ کی جانب سے پیچھا کرنے کے بعد پاکستان کی جانب سے آنے والی ماہی گیروں کی کشتی پر سوار عملہ کے چار افراد نے دھماکہ سے کشتی کو اڑا دیا جس کے بعد یہ کشتی ڈوب گئی اور چاروں افراد مارے گئے۔ بیان میں دعویٰ کیا گیاتھا کہ یہ چار افراد کراچی سے کشتی پر سوار ہوئے تھے یہ کشتی کراچی کے قریب کیٹی بندر سے روانہ ہوئی۔
دعویٰ کے مطابق 15 میٹر لمبی اس کشتی پر بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔ یہ واقعہ 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب پیش آیا۔ یہ کشتی پور بندر کے بھارتی ساحل سے 200 ناٹیکل میل دور دیکھی گئی۔ انٹیلی جنس رپورٹ ملنے پر بھارتی کوسٹ گارڈ کے جہازوں اور طیاروں نے پاکستانی میری ٹائم سرحد کے قریب اس کشتی کو گجرات کی بندرگاہ سے 365 کلو میٹر دور روکا اس کشتی نے اپنی رفتار بڑھا دی اور بھارتی میری ٹائم حدود سے نکلنے کی کوشش کی۔ کشتی کا ایک گھنٹے تک تعاقب کیا گیا۔ اگرچہ کشتی وارننگ شاٹس کے بعد رک گئی تاہم کشتی پر سوار 4 افراد نے خود کو اس کے عرشہ سے نیچے چھپا لیا اور اس کے بعد یہ کشتی زوردار دھماکے سے پھٹ گئی۔ رات کی تاریکی، خراب موسم اور تیز ہوائوں کے باعث کشتی اور اس پر سوار افراد کو نہیں بچایا جا سکا۔
یہ کشتی جل کر تباہ ہونے کے بعد ڈوب گئی۔ بھارتی بحریہ کے بیان میں کہا گیا کہ کشتی پر سوار افراد کوئی ناجائز ٹرانزیکشن کرنا چاہتے تھے۔ 31دسمبر کو خفیہ اداروں نے اطلاع دی تھی کہ کراچی کے قریب مچھلیاں پکڑنے والی کشتی کے ذریعے بحیرہ عرب میں خطرناک حملے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس کے بعد کوسٹ گارڈز اور ڈرونئر ایئرکرافٹس نے سمندر میں تلاش شروع کردی۔ا س آپریشن کو فضائی مدد بھی حاصل تھی۔ دعویٰ کے مطابق بھارتی پانیو ں میں داخل ہونے پر دھماکہ خیزمواد سے بھری کشتی نے پاکستان فرار ہونے کی ناکام کوشش کی۔ جس طرح بھارتی حکومت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اسی طرح پاکستان سے متعلق رائی کو پہاڑ بناکر پیش کرنا متعصب بھارتی میڈیا کی پرانی عادت ہے ،بھارتی حکومت اور میڈیا نے اسی روایت کو دہرایا ،لیکن 31 دسمبرکو گجرات کے قریب سمندر میں پیش آنے والے واقعے صرف 48 گھنٹے بعد ہی بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی وزارت دفاع کے دعوئوں کا پوسٹ مارٹم کرکے رکھ دیا۔
بھارت کو ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام تراشی مہنگی پڑگئی اور اپنے ہی میڈیا نے حکومت اور خفیہ اداروں کی سازش کا بھانڈا پھوڑدیا۔ بھارتی اخبار’انڈین ایکسپریس’ نے لکھاتھا کہ گجرات کے قریب سمندر میں تباہ ہونیوالی کشتی میں دہشتگر د نہیں بلکہ سمگلنگ کا ڈیزل تھا جو دوسری کشتی میں منتقل کیاجاناتھالیکن حادثے کا شکار ہوکر تباہ ہونیوالی کشتی کو بھارتی بحریہ نے اپنا ہی کارنامہ بنا کر پیش کردیا اور دعویٰ کیا کہ تباہ ہونیوالی کشتی میں دہشتگرد اسلحہ و بارودی مواد منتقل کررہے تھے جس کیخلاف کارروائی کے دوران ہی دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے کشتی اْڑگئی تھی۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق کشتی کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ کشتی خود ہی حادثے کا شکار ہوکر تباہ ہوگئی۔ جو شواہد سامنے آئے اْن سے پتا چلتا ہے کہ ماہی گیروں کی کشتی میں شراب اور ڈیزل کے اسمگلر تھے۔ ماہی گیروں کی کشتی کا انجن اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ کوسٹ گارڈ کی تیز رفتار کشتیوں کو شکست دے سکے۔بھارتی نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن نے کیٹی بندر سے چھوٹے سے اسمگلروں کی موبائل فون پر ہونے والی گفتگو پکڑی تھی۔ اخبار کے مطابق کشتی کا ملبہ اکٹھا کیا جاتا تو فورینزک معائنے سے دھماکا خیز مواد کی نوعیت کا پتا چل سکتا تھا۔
جلتی ہوئی کشتی کی جو تصویریں جاری کی گئیں انہیں دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ اس میں پلاسٹک ایکسپلوسو نہیں بلکہ دستی بم جیسا عام دھماکا خیز مواد ہوسکتا تھا۔اخبار کے مطابق 31 دسمبر کی شب مچھلیاں پکڑنے گئے تمام ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی کشتی جلتی ہوئی نہیں دیکھی۔ اس سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ یہ واقعہ شاید بھارتی سمندری حدود کے بجائے بین الاقوامی پانیوں میں ہوا ہے۔ رپورٹ کے جائزے سے یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر واقعہ بین الاقوامی پانیوں میں ہوا ہے تو بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے ،اس کا حساب کون دے گا۔کہیں بھارتی کوسٹ گارڈ کے ہاتھ بیگناہوں کے خون سے تو نہیں رنگ گئے ؟اور یہ بھی،کہ کہیں بھارتی وزارت دفاع تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کو سزا دینے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کرکے خود بھی شریک ملزم تو نہیں بن رہی۔ہمیشہ کی طرح ایک بے بنیاد اور مشکوک کہانی کو پاکستان سے منسلک کرنے میں کسی تامل سے کام نہیں لیا گیا اور فوری طور پر یہ الزام سامنے آگیا کہ اسے کراچی سے روانہ کیا گیا تھا اور اس کا مقصد بھارت پر حملہ کرنا تھا۔
معروضی حالات اس بات کی طرف ضرور اشارہ کرتے ہیں کہ اس طرح کا ڈھونگ رچانا بھارت کی سخت ضرورت بن چکا تھا۔ پاکستان کے اندرونی حالات اور خصوصاً سانحہ پشاور کے بعد افواج پاکستان اور قوم کی دہشت گردوں کے خلاف یکسوئی کے پیش نظر یہ بات قرین قیاس نہیں کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے خلاف کوئی بھی کارروائی کی جارہی تھی۔ بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے اور گزشتہ چند دنوں میں درجنوں بار لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر بلا اشتعال فائرنگ کی جاچکی ہے۔ سال نو کے پہلے ہی دن دو پاکستانی جوانوں کو فلیگ میٹنگ کے بہانے بلا کر ان پر گولیاں برسانا نہایت شرمناک حرکت اور بین الاقوامی قوانین کی بدترین خلاف ورزی تھی اور اس سنگین جرم سے توجہ ہٹانے کیلئے اس سے بہتر حکمت عملی کیا ہوسکتی تھی کہ الٹا پاکستان پر ہی سنگین الزامات لگادئیے جائیں۔ مشکوک کشتی اور پاکستان پر الزامات کا پراپیگنڈہ کرتے ہوئے بھارتی حکام اور میڈیا کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ جھوٹ کا بلبلا تو جلد یا بدیر ختم ہوجائے گا لیکن پاکستان کے خلاف بھارتی جرائم ایک ٹھوس حقیقت ہیں جنہیں کسی بھی پراپیگنڈہ سے چھپایا نہیں جاسکتا۔
تحریر : محمد شاہد محمود