تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
پاکستان سے خبریں ہیں کہ اس سال شراب کی ریکارڈ فروخت ہوئ۔ اربو روپوں کی شراب فروخت ہوئ۔ مری بریوری کمپنی جو کہ پاکستان کا سب سے قدیم شراب بنانے کا کارخانہ ہے اس برطانوی دور حکومت سے قائم کارخانے مری بروری میں آج بھی بیئر، ووڈکا، وائن، جِن، رم اور نان الکوہل بیئر تیار کی جاتی ہے۔اور پھر اسے پورے پاکستان میں فروخت کیا جاتا ہے۔
اس شراب کی سب سے زیادہ فروخت سندھ اور بلوچستان میں ہوتی ہے۔ اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ سندھ میں مسیحی اور ہندو کمیونٹی کی تعداد زیادہ ہے اس لئے یہاں شراب سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہے۔ جو کوئ بھی اندرون سندھ کے بارے میں تھوڑی سی بھی معلومات رکھتا ہو گا وہ جانتا ہے کہ سندھ میں رہنے والے ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے کہیں نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ جن کے پاس کھانے کے لئے ساٹھ روپئے نہی ہیں وہ روزانہ 700 سو روپئے کا پوئنٹ کہاں سے پیئں گے ۔ اسے طرح مسیحیوں کی تعداد سندھ میں ضرور ہے مگر مسیحیوں کی سب سے بڑی تعداد صوبہ پنجاب میں رہتی ہے ۔ اور کیا پنجاب میں مسیحی بستیوں میں رہنے والے پاکستانی ہر سال کروڑوں اوراربوں کی شراب پی جاتے ہیں۔
میں نے شراب کے حوالے سے تاریخی حقائق جاننے کے لئے بھولے سے رابطہ کیا۔ تو بھولے نے بتایا کہ وہ اس بار کرسمس اور نئے سال کے موقع پر پاکستان میں تھا ۔ اور اس کی معلومات کے مطابق کرسمس کے موقع پر کراچی میں مسیحی نوجوانوں کو شراب خرید کر لے جاتے ہوئے پولیس نے پکڑا اور رشوت لے کر چھوڑ دیا ۔ اس کے علاوہ چند مسیحی تقریبات میں مسیحی نوجوان آپس میں شراب کے نشے میں الجھ پڑے۔
بھولے نے ایک اور عجیب بات بتائ کہ آج کے دور میں 12 سال تک کے نوجوان بھی شراب کی لت میں پڑ چکے ہیں۔ اور مسیحی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد شراب پیتی ہے۔ ان میں سے 8 سے 10 فیصد ایسے نوجوان ہیں جو صرف تقریبات میں موڈ بناتے ہیں مگر 20 فیصد سے زائد روز کے پینے والوں میں ہیں ۔ بھولے نے مضید تفصیل سے بتایا کہ 60 اور 70 کی دہائ تک ملک میں شراب کے گُتے (رسیٹورینٹ) موجود تھے اور شراب سب کے لئے دستیاب ہوا کرتی تھی۔ پوش علاقوں میں تو شراب کے ساتھ رقص کی محفلیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ بھٹو کے دور میں 72 کے الیکشن پر 9 مزہبی جماعتوں کے قومی اتحاد نے بھٹو پر مزہبی طور پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ شراب پر پابندی لگائ جائے۔
بھٹو صاحب بھی ایک بڑے سیاستدان تھے۔ انہوں نے بھی ایسا چکر چلایا کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی بچ گئ۔ یعنی شراپ کی پابندی کو اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ مشروط کر کے شراب کو دیس نکالاہونے سے بچا لیا ۔ چند مسیحی نام نہاد لیڈرز کو ساتھ ملا کر یہ تاثر مضبوط کیا کہ مسیحیت میں شراب حلال ہے۔ آپ اگر پاکستان کی پرانی فلمیں دیکھیں تو ان میں آپ کو ریٹا ، روزی یا پھر مارگریٹ نامی لڑکیاں اس طرح کے کلبوں میں نشے میں دھُت عریاں رقص کرتی نظر آتی ہیں۔
تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ مسیحی ایسے ہی ہوتے ہیں جبکہ یہ بات قطئ طور پر غلط ہے اور پاکستان میں موجود مسیحیوں کے دو بڑے نمایندے چرچ کیتھولک چرچ اور چرچ آف پاکستان صاف طور پر اپنے علامیے میں مسیحیت میں شراب کو حرام قرار دے چُکے ہیں۔ ۔ اور پاکستان میں مسیحیوں کی سب سے بڑی تعداد انہی دو چرچز سے تعلق رکھتی ہے۔ میں نے بھولے سے پوچھا کہ اگر قانونی طور پر مسیحیوں کو شراب حلال ہے تو پھر پولیس مسیحی نوجوانوں کو شراب خرید کر لے جاتے ہوئے کیوں پکڑتی ہے۔
بھولے نے جواب میں ایک مسکراہٹ چپکا دی۔ ہاں بھولے نے بتایا کہ شراب کی مسیحیوں کے لئے کھلی اجازت سے مسیحی نوجوان بہت تیزی ے ساتھ تباہ ہو رہے ہیں۔ کراچی میں عیسی نگری ، پہاڑ گنج ، ڈرگ روڈ ، ملیر ، برف خانہ اور بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں ہر تین میں سے ایک نوجوان شراب یا پھر کسی نہ کسی نشے کا عادی ہے۔ شراب چونکہ مہنگی ہوتی ہے تو اگر یہ نوجوان شراب نہ خرید سکیں تو پھر چرس اور ہیروین جیسے نشوں میں پڑ جاتے ہیں۔ اور اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں۔ بھولے نے بتایا کہ وہ زاتی طور پر نام تک بتا سکتا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں کتنے مسیحی نوجوان شراب اور ان نشو کی لت کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دو بیٹھے۔
س وقت بھی بہت سے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہیں مگر نشہ نہی چھوڑتے ۔ اس طرح کے نوجوانوں کی مدد کے لئے کوئ ادارہ نہی ہے۔ اور حکومت کی جانب سے بھی اس کی روک تھام کے لئے کچھ نہی کیا جارہا ہے۔ ہمارے مسیحی چونکہ الیکشن سے منتخب نہی ہوتے اس لئے ان کو ووٹ کے لئے بھی مسیحی کمیونٹی کی ضرورت نہی ہوتی اور نہ ہی یہ ہماری کمیونٹی کی خدمت کرنے کہ پابند ہیں۔ اس لئے ان سے کوئ امید رکھنا تو بیکار ہے مگر کیا حکومت ایسے نوجوانوں کی مدد کے لئے کچھ کر سکتی ہے یا نہی یہ ایک سوال ہے۔ اب اگر شراب اسلام میں حرام ہے تو پاکستان میں بھی اسے ممنوع قرار دیا جانا چاہئے۔ اقلیتوں کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلانے سے ایک تو ہم سب گنہگار ہوتے ہیں دوسرا ہمارے ملک کا نقصان ہے۔
تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم