پاکستان کی عسکری قیادت نے یومِ پاکستان کے حوالے سے نیا پرومو ”ہم سب کا پاکستان” جاری کیا ہے ۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ افواجِ پاکستان اور پاکستانی قوم ملک کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے تھے ، کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ یہ ہم سب کا پاکستان ہے ۔ اسی طرح کے پیغامات پاک بحریہ اور فضائیہ کے چیفس نے بھی جاری کیے ہیں ۔ یقیناََ زندہ قوموں کا یہی عزم ہوتا ہے جو افواجِ پاکستان کی طرف سے جاری ہوا ۔ جب قوموں پر بُرا وقت آتا ہے تو سبھی اپنے اختلافات بھلا کر دشمن کے سامنے سدّ ِ سکندری بن جاتے ہیں ۔ 23 مارچ 1940ء تو دراصل پاکستان کو آزاد و خودمختار اور پُرامن جمہوری ملک بنانے کے عہد کی تجدید کا دِن ہے۔
قراردادِپاکستان 23 مارچ 1940ء کو پیش کی گئی ۔ اِس قرارداد کا مسودہ نواب زادہ لیاقت علی خاں ، سَر سکندر حیات خاں ، چودھری خلیق الزماں ، ملک برکت علی اور مولانا ظفر علی خاں 22 مارچ کی رات کو ہی تیار کر چکے تھے ۔ قرار داد کا متن انگریزی میں تھا جس کا اُردو ترجمہ مولانا ظفر علی خاں نے کیا اور یہ قرارداد شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی۔ یہ قرارداد 24 مارچ کو منظور ہوئی لیکن چونکہ 23 مارچ کو قرارداد پیش کی گئی تھی اِس لیے ہم اِسی دن کی مناسبت سے یومِ پاکستان کی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں ۔ یہی وہ قرارداد تھی جو تشکیلِ پاکستان کی بنیاد بنی اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔
سوال یہ ہے کہ اِس قرارداد کی اصل روح کیا ہے اور کیا ارضِ وطن میں وہی روح کارفرما ہے؟۔ کیا جس دو قومی نظریے کو بنیاد بنا کر زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا گیا ، وہ نظریہ پاکستان میں کہیں نظر آتا ہے؟اور کیا مصورِ پاکستان علامہ اقبال نے 29 نومبر 1930ء کو الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جو تاریخی خطبہ دیا وہ تشکیلِ پاکستان کے بعد کہیں نظر آیا؟۔ علامہ اقبال نے تو فرمایا تھا کہ” ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ اِن کی ثقافت ، سیاست ، تمدن اور معاشرت ہر لحاظ سے الگ ہے اِس لیے برِ صغیر پاک و ہند کے مسائل کا حل یہی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک جداگانہ اور علیحدہ مملکت ہو” ۔ یہی دو قومی نظریے کی اصل روح تھی اور اسی کی بنیاد پر اقوامِ عالم کے نقشے پر یہ مملکتِ خُداداد وجود میں آئی لیکن تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ یہ دو قومی نظریہ وقت کی دھول میں کہیں گُم ہو چکا ہے۔
اب ہماری تہذیب اپنی ہے ، نہ تمدّن اور نہ ہی معاشرت ۔ ہندوانہ رسم و رواج ہمارے دِلوں کو مسخر کر چکے ہیں اور انگریزوں کی غلامی کا طوق تا حال ہمارے گلے کی زینت ہے جسے پہن کر ہم اتراتے پھرتے ہیں ۔ جس شخص کو مُنہ ٹیڑھا کرکے انگریزی کے چار لفظ بولتے ہوئے سنتے ہیں ، ہم فوراََ اُس سے متاثر ہو جاتے ہیں ۔ قائدِ اعظم نے اُردو کو قومی زبان کا درجہ دیا لیکن ستّر سال گزرنے کے باوجود یہ قومی زبان کا درجہ اختیار کر سکی نہ دفاتر میں مروّج ہوئی ۔ جا بجا مہنگے ترین ”انگلش میڈیم” ادارے کھُلے ہیں ، جہاں اشرافیہ کے بچے ”کاٹھے انگریز” بنائے جاتے ہیں اور ”اُردو میڈیم” طعنہ بن کے رہ گیا ہے ۔ جو حکمران سَتّر سالوں میں اُردو کو قومی زبان کا درجہ نہیں دے سکے ، اُن سے بھلا اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
جہاں تک اِس مملکتِ خُداداد کے نام یعنی ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” کا تعلق ہے تو یہ بھی نام نہاد ہی ہے کہ 73ء کے آئین کے مطابق ہم نے سات سالوں میں تمام قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا تھا ۔ آج چوالیس سال گزرنے کے باوجود بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے وزیرِ اعظم صاحب کو بھی ”لبرل پاکستان” ہی میں عافیت نظر آتی ہے اور ہولی ، دیوالی میں شرکت کی شدید خواہش ۔ جمہوریت ہمارے ہاں زور آور کے گھر کی باندی ، دَر کی لونڈی ہے اور آئین و قانون صرف غریب غرباء کے لیے ۔ آپ کو کئی ایسے معروف رہنماء نظر آئیں گے جو پولیس کے کاغذوں میں ”مفرور” قرار دیئے جا چکے ہیں لیکن وہ دندناتے ہوئے سرِعام پھر تے ، جلسے جلوسوں میں گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرتے اور نیوز چینلز پر انٹرویو دیتے نظر آتے ہیں ۔ دو ، چار دِن پہلے ہی کی بات ہے جب ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستّار کو پولیس پکڑ کے لے گئی کیونکہ موصوف کئی مقدمات میں مفرور و مطلوب تھے اور اُن کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے تھے لیکن دو گھنٹے بعد ہی اُنہیں گھر جانے کی اجازت مِل گئی ۔ بعد ازاں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سیّد مراد علی شاہ نے فرمایا کہ فاروق ستّار کو تھانے اِس لیے بلایا گیا تھا کہ وہ اپنی ضمانت کروا لیں ورنہ اُنہیں پکڑ لیا جائے گا۔
پولیس کے اہلکار جب عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور اُن سے مفرور ملزمان کی عدم گرفتاری کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ جواباََ کہتے ہیں کہ ملزم مفرور ہے اور اُس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ تب جج صاحبان بھی کوئی سوال کیے بغیر انتہائی خاموشی سے اگلی تاریخ دے دیتے ہیں۔ واہ ! کیا بات ہے ہمارے قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ۔قائدِاعظم نے تو قراردادِپاکستان کی منظوری سے قبل دو گھنٹوں پر محیط خطاب میں فرمایا تھا کہ اُنہوں نے جہاں گزشتہ چھ ماہ مسلمانوں کی تاریخ اور قانون کے مطالعے پر صرف کیے ، وہاں اُنہوں نے اپنے طور پر قُرآنِ مجید کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ۔ قائدِاعظم کے اِس فرمان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا تصورِ پاکستان ایک اسلامی ذہن رکھنے والے رہنماء کا تھا اور وہ متعدد بار اِس کا اظہار بھی کر چکے تھے ۔ اُنہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ مسلمانانِ ہند کو ایک ایس قطعۂ زمین چاہیے جسے وہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر سکیں ۔ وہ اصحاب جو یہ ثابت کرنے کے لیے کہ قائدِ اعظم کا تصور ایک ”سیکولر سٹیٹ” کا تھا ، اُن سے دست بستہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر ایسا ہی تھا تو پھر دو قومی نظریہ کیا ہے جس کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا ۔ ہندوستان بھی نام نہاد ہی سہی لیکن ایک سیکولر سٹیٹ تو ہے ۔ پھر برِ صغیر کی تقسیم کیوں کی گئی اور لاکھوں جانوں کی قربانی کیوں دی گئی؟۔حرفِ آخر یہ کہ 23 مارچ پر جی بھر کے خوشیاں منائیے کہ زندہ قومیں اپنے قومی دِن پورے تزک و احتشام سے مناتی ہیں لیکن خُدارا نظریۂ پاکستان کو مت بھولیے کہ اِسی میں فلاح کی راہ نکلتی ہے۔ یہ ہم سب کا پاکستان ہے اور ہم سب نے مِل کر ہی اِِسے عظیم تَر بنانا ہے۔