پیرس میں منعقد خصوصی تربیتی پروگراموں میں پاکستانی طالب علم اور محقیقین اپنے علوم اور تجربات کے تبادلوں کے ذریعے مستفید ہو رہے ہیں جس سے دونوں ممالک میں آثار قدیمہ کے شعبے میں تعلقات مزید فروغ پا رہے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار آج فرانسیسی آثار قدیمہ کے انڈس بیسن مشن کے سربراہ جناب ڈاکٹر ایرورے ڈیڈیر نے سفارت خانہ پاکستان میں سفیر پاکستان برائے فرانس جناب معین الحق سے اپنی ہونے والی ملاقات کے دوران کیا۔ جناب ڈاکٹر ڈیڈیر نے پاکستانی 6رکنی ایم فل اور ڈاکٹریٹ کے طالبعلموں سے تعارف بھی کروایا جو کہ آج کل پیرس میں اپنی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اس موقع پر سفیر پاکستان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فرانس اور پاکستان کے آثا قدیمہ کے شعبے میں بہت مضبوط اور مسلسل باہمی تعلقات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو فرانسیسی آثار قدیمہ کا پہلا وفد 1958 میں پاکستان آیا اور اس فرانسیسی وفد نے بلوچستان اور سندھ میں بہت سی اہم دریافتیں بھی کیں اور اس وفد نے پاکستان کی بہت سی جدید و قدیم ثقافتوں کو تلاش کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی سفارت حانہ اگلے سال اس آثار قدیمہ کے وفد کے 60 سال مکمل ہونے پر پیرس میں ایک خصوصی پروگرام کروانے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں پاکستان کی قدیم تاریخ اور آثار قدیمہ کے نمونوں کو نمائش کیلئے پیش کیا جائے گا۔
سفیر پاکستان نے پاکستانی طالب علموں اور محقیقین کی تربیت اور انہیں آثار قدیمہ کے شعبے میں جدید تحقیق، تعلیم اور مہارتوں سے آراستہ کرنے کیلئے مدد فراہم کرنے پر (ایم اے ایف بی آئی) اور فرانسیسی وزارت یورپ اور خارجہ امور پر ان کی کاوشوں کو خصوصی طور پر سراہا۔
انڈس بیسن میں فرانسیسی آثارقدیمہ مشن 1958 میں قائم کیا گیا اور اس وقت سے کھدائی کے دوران پاکستان میں آثار قدیمہ کے کئی بڑے مراکز دریافت ہوئے جن میں سندھ میں عمری جبکہ بلوچستان میں مہرگڑھ، نندو واری، نوشیرو، مری قلات اور شاہی قلعہ شامل ہیں۔