اسلام آباد(ایس ایم حسنین) پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ عسکری حکام کے جنگ بندی سے متعلق مشترکہ بیان پر لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف بسنے والے کشمیریوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ قابض بھارتی فوج کے ظلم وبربریت کا شکار مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام اور لائن آف کنٹرول کے اس پار آزاد کشمیر کے رہائشی جو آئے روز بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ سے جانی و مالی نقصان سے دوچار رہتے تھے نے اب سرحد پر صورتِ حال کے بدلنے کو امید افزا قرار دیا ہے ۔پاک بھارت ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز نے طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق 24 اور 25 فروری کی درمیانی شب معاہدے کے تحت لائن آف کنٹرول اور دوسرے سیکٹرز میں جنگ بندی پر عمل درآمد پر اتفاق کیا ہے۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق مقبوضہ جموں کشمیر میں اوڑی سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نے کہا کہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے وہ پِس رہے تھے اور آئے دن کی فائرنگ اور شیلنگ کے نتیجے میں وہ اپنے پیاروں کو کھو رہے تھے۔ ‘اوڑی رورل ڈویلپمنٹ سوسائٹی’ کے چیئرمین بھی ہیں کا کہنا تھا کہ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اب وہ رات کو اچھی طرح سے سو پائیں گے۔ آزاد کشمیر کے نکیال سیکٹر کے موہرہ گاؤں کے مکین تصدق حسین نے کہا کہ وہ خوش ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس عہد پر واقعی عمل بھی ہو گا۔ واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ نومبر 2003 میں طے پایا تھا۔ کئی سال تک اگرچہ اس معاہدے کی پاسداری ہوتی رہی۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ کئی بار معاہدے کی خلاف ورزیاں بھی ہوتی رہیں۔ ایل او سی کے ساتھ ساتھ 198 کلو میٹر لمبی سیالکوٹ-جموں سرحد جسے پاکستان میں ‘ورکنگ باؤنڈری’ اور بھارت میں ‘بین الاقوامی سرحد’ کہا جاتا ہے پر تعینات افواج بالخصوص 2010 کے بعد ایک دوسرے کے ٹھکانوں کو دوبارہ ہدف بنانے لگیں اور ہر بار انہوں نے سمجھوتے کی خلاف ورزی کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھیرایا۔ ‘حریت کانفرنس’ کے مرکزی راہنما میر واعظ عمر فاروق نے اعلامیے کو صحیح سمت میں اٹھنے والا قدم قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پورے خطے میں باہمی فائدہ مند اور پائیدار امن کے حصول کے لیے بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو بنیادی مسئلے یعنی مسئلہ کشمیر کو ریاستی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ یہ وہی مسئلہ ہے جو خطے میں تنازعات اور تشدد کی وجہ ہے۔ جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے بھی پاکستان اور بھارت کے عسکری حکام کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔ جموں و کشمیر ‘نیشنل کانفرنس’ کے صدر فاروق عبد اللہ نے کہا ہے کہ یہ اقدام پائیدار امن کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس دونوں ممالک کے درمیان پائیدار دوستی اور اعتماد کی ہمیشہ خواہاں رہی ہے۔ ان کے بقول سرحدوں پر تناؤ اور جھڑپوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے جموں و کشمیر کے عوام ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خونریزی کا یہ انتہائی ناپسندیدہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔
اس طرح کے واقعات میں اگرچہ دونوں ممالک کی افواج کا بھی جانی نقصان ہوا۔ لیکن اس سے سب سے زیادہ متاثر سرحدوں کے قریب آباد مکین ہوئے۔
عسکری حکام کے مشترکہ اعلان کے ردِ عمل میں اوڑی کے بلہ کوٹ نامی گاؤں کے ایک شہری بشیر احمد ڈار نے کہا کہ کاش دو ملکوں کے درمیان یہ عہد و پیمان پہلے ہوا ہوتا یا 17 سال پہلے طے پائے فائر بندی کے سمجھوتے کی کبھی خلاف ورزی ہی نہ ہوئی ہوتی۔ تو وہ اپنی بیوی کو نہ کھوتے۔
بشیر کی 35 سالہ اہلیہ فاروقہ بیگم گزشتہ برس 19 نومبر کو شیلنگ کے ایک واقعے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔