یہ بات ماننی پڑے گی کہ جب سے 6 ستمبر کا معرکہ ہوا ہے حالانکہ ہر سال ہماری فوج اور ہماری سویلین حکومت کی طرف سے یہ دن کسی نہ کسی حد تک جوش و خروش سے منایا جاتا ہے مگر اس 6 ستمبر کو جس لگن اور جوش و خروش کے ساتھ خاص طور پر ہماری افواج، میڈیااور عوام نے منایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی،مجھے اجازت دیں کہ میں اس کا اعزاز فوج کے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو دوں، ایسے کئی اسباب ہیں جن کی بنا پر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں، جس مثالی انداز میں اس بار پاکستان کی افواج و دیگر اداروں کی طرف سے 6 ستمبر کا یادگار دن منایا گیا ہے اس سلسلے میں یقینا جنرل راحیل شریف نے ذاتی ہدایات دی ہوں گی اور پھر اس مرحلے پر انہوں نے جو تقریر کی اس کی مثال بھی ماضی میں نہیں ملتی ،نہ اس بار 6 ستمبر کا دن عام روایتی طور پر منایا گیا اور نہ ہی اس بار جنرل راحیل شریف نے جو تقریر کی وہ روایتی تھی،انہوں نے اس تقریر میں صرف جنگ ستمبر اور مسلح افواج کی بے مثال بہادری کا ذکر نہیں کیا‘ انہوں نے اس تقریر میں صرف عوام کی بہادری اور سول حکومتوں کے کردار کا براہ راست یا بالواسطہ ذکر نہیں کیا بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ ’’نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے‘‘ ۔ دیکھا جائے تو جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا کہ ’’نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے‘‘ نہ فقط حکمرانوں کے لئے‘ نہ فقط ساری سیاسی جماعتوں کے لئے‘ نہ فقط ہمارے سارے دانشوروں کیلئے مگر پاکستان کے عوام کیلئے ایک اہم پیغام ہے‘ پچھلے آرمی چیفس آف اسٹاف اور جنرل راحیل میں کتنا فرق ہے؟ ان کی ساری تقریر میں ایسا ایک شائبہ بھی نہیں ملتا کہ وہ ملک میں مارشل لا لگانا چاہتے ہیں‘ تقریر میں جنرل راحیل شریف نے کہا کہ’’کرپشن کے خاتمے کیلئے سارے ادارے مل کر اپنا کردار ادا کریں‘ قومی سلامتی کیلئے کسی حد تک بھی جانے سے نہیں گھبرائیں گے‘ ملک کی سلامتی کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں‘ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قانون اور انصاف کے نظام میں کمزوریاں ختم کرنے کی ضرورت ہے‘ کرپشن اور دوسری برائیاں امن کے قیام میں رکاوٹ ہیں‘ اس کیلئے بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے‘ اس کیلئے سارے سیکورٹی اور سول اداروں کو مل کر کردار ادا کرنا پڑے گا‘ کشمیریوں کی حمایت جاری رکھی جائے گی‘ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے‘ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی اہم باتیں کی ہیں جن کی اپنی جگہ پر اہمیت ہے‘لیکن جنرل راحیل شریف نے نظام میں اصلاحات لانے کا جو پیغام دیا ہے وہ بہت اہم ہے‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ’’انتہائی اہم‘‘ پیغام ہمارے حکمرانوں کے سروں پر سے گزر جائے گا اور ان کو نہ اس پیغام کا احساس ہوگا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہیں‘ فی الحال میں فرض سمجھتا ہوں کہ 6 ستمبر کی جنگ اور چند دیگر حوالوں سے جنرل راحیل شریف کی توجہ ہندوستان کے خلاف دو جنگوں کے دوران ایک سویلین فورس ’’حر فورس‘‘ اور ہندوستان میں مسلمانوں کی آزادی کی خاطر ہندوستان اور خاص طور پر سندھ میں بڑے پیر پگارا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی شہید کی قیادت میں حروں کی طرف سے چلائی جانے والی مسلح جدوجہد کی طرف مبذول کرائوں۔ سب سے پہلے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 6ستمبر کو ہونے والی جنگ کا ذکر کروں گا‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جنگ میں پاکستانی افواج کے کئی جنرلوں‘ کئی دیگر فوجی افسروں اور جوانوں نے انتہائی بہادری سے لڑتے ہوئے ہندوستانی فوج کو نہ فقط روک لیا تھا مگر اسے پیچھے دھکیلنے پر مجبور کیا ان بہادروں کا ذکر کرنا چاہئے اور بار بار کرنا چاہئے‘ مگر اس جنگ میں سندھ کی ایک سویلین فورس جسے ’’حر فورس‘‘ کہا جاتا ہے نےجس طرح ہندوستانی افواج کا مقابلہ کیا اور ہندوستان کے ایک وسیع علاقے پر قبضے کرلیا اس کی مثال دنیا بھر میں ملنا مشکل ہے‘ سندھ کی تاریخ گواہ ہے کہ جب ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا اور پنجاب کے ساتھ سندھ کے بارڈر پر بھی محاذ آرائی کی تو اس وقت کے پیر پگارا‘ پیر شاہ مردان شاہ نے عمر کوٹ کے نزدیک ایک قلعہ میں اپنے ہزاروں مریدوں کو جمع کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ آگے بڑھیں اور ہندوستانی فوج کا مقابلہ کریں اس وقت کی پاکستان افواج کے جرنیلوں نے بھی اس رویے کی تعریف کی اور اطلاعات کے مطابق انہیں اسلحہ وغیرہ فراہم کیا گیا‘ جب جنگ ختم ہوئی تو ’’حر فورس‘‘ ہندوستان کے 600 سے 700 میل علاقے پر قبضہ کرچکی تھی‘ بعد میں پاکستان کی افواج کی طرف سے ’’حر فورس بنائی گئی‘‘ اور حر فورس کو مجاہد فورس کا درجہ دیا گیا‘ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری فوج کی طرف سے حر فورس کو نیم فوجی فورس کا درجہ دیا گیا‘ بعد میں 1971 ء میں ایک بار پھر ہندوستان اور پاکستان میں ’’رن کچھ‘‘ کے بارڈر پر جنگ ہوئی‘ یہ جنگ سندھ تک محدود تھی‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جنگ میں پاکستان کی افواج نے انتہائی دلیرانہ کردار ادا کیا مگر ’’حر فورس‘‘ بھی پیچھے نہیں رہی‘ حر فورس نے ہندوستان کی فوج کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور جنگ بند ہوئی تو ایک بار پھر ہندوستان کا تقریباً 700 میل کا علاقہ حر فورس کے قبضے میں تھا جس میں مشہور ’’مونا بائو‘‘ ریلوے اسٹیشن بھی شامل تھا‘ مگر سچی بات یہ ہے کہ بڑے پیر پگارا اور حروں نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ میں جو کہ کردار ادا کیا‘ اس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی‘ بعد میں انگریز حکومت نے بڑے پیر پگارا کو گرفتار کیا اور ساتھ مکھی جھیل جہاں انگریزوں کی فورس پر حملہ کرنے والے حر فورس کے مسلح گوریلے چھپے ہوئے تھے اس پر بمباری کی گئی‘ ساتھ ہی پیر گوٹھ جو پیر پگارا کے نام سے مشہور ہے اس میں پیر پگارا کے وسیع قلعہ پر انگریزوں نے بمباری کی‘ پیر پگارا کو پھانسی کی سزا دی گئی‘ کئی مورخ اس بات کے گواہ ہیں کہ جس رات پیر صاحب کو پھانسی دی گئی تھی اس رات وہ پھانسی گھاٹ کی ایک کوٹھڑی میں ایک اور قیدی سے شطرنج کھیل رہے تھے اور وہ بازی پر بازی جیت رہے تھے‘ اس سے پیر صاحب کے حوصلے اور بہادری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے‘ پیر صاحب کو پھانسی دینے کے بعد ان کی لاش کو پتہ نہیں کہاں دفنایا گیا‘ ان کی قبر کی آج تک تلاش جاری ہے‘ دوسری طرف حروں کے خاندان کے خاندان جن میں عورتیں‘ مرد‘ بوڑھے اور بچے شامل تھے کو خاردار جھاڑیوں کے حصار میں بند کردیا گیا‘ پتہ نہیں حر خاندانوں کے کتنے بچے یہاں پیدا ہوئے‘ یہ خاردار حصار پاکستان بننے کے بعد بھی برقرار رکھے گئے اور آزاد پاکستان کی حکومتوں کو ہمت نہیں ہوئی کہ ان حر خاندانوں کو ان حصاروں سے آزادی دلوائیں‘ بعد میں جب پیر شاہ مردان شاہ پاکستان لوٹے اور پگ باندھی تو 6 سال کے بعد یہ حصار ختم کیے گئے اور ان میں مقید حر خاندانوں کو رہائی ملی‘ یہاں ایک تو یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ سندھیوں کو اکثر مارشل Race نہ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے تو کیا حر سندھی نہیں ہیں‘ کیا حروں جیسا مارشل ریس کوئی ہوسکتا ہے‘ دوسری بات میں بڑے ادب سے جنرل راحیل شریف سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مختلف ادارے شہید پیر
پگارا کی قبر کو تلاش کریں‘ تیسری عرض پاکستان کے اس بہادر جنرل کے سامنے انتہائی ادب اور عاجزی کے ساتھ رکھوں گا کہ کیا شہید پیر پگارا اس بات کے حقدار نہیں ہیں کہ انہیں فوج کا بڑے سے بڑا Post humous ایوارڈ دیا جائے اور جی ایچ کیو میں ایک عظیم الشان تقریب میں موجودہ پیر پگارا کو ان کے دادا کا ایوارڈ دیا جائے۔
بشکریہ جنگ