تحریر : مسز جمشید خاکوانی
اس کرشماتی اور حیرت انگیز واقعے کو دیکھنے کے لیے ہزاروں افراد جمع تھے دونوں صحابہ کرام کی لاشیں بالکل محفوظ تھیں اور کفن بھی پرانے نہیں معلوم ہو رہے تھے معجزاتی طور پر دونوں صحابہ کرام کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر یہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا کہ 1300سال گذرنے کے بعد بھی صحابہ کرام کے کفن اور داڑھیاں بھی بالکل سفید تھیں ایسے لگتا تھا جیسے چند گھنٹے قبل ہی ان کی وفات ہوئی ہو اگرچہ حضرت حذیفہ بن الیمان کا وصال 36ھ اور حضرت جابر بن عبداللہ کا وصال 74ھ میں ہوا تھا جبکہ خواب میں ان صحابہ کرام کا آنا اور قبر کشائی کا واقعہ 1351ہجری بمطابق 1932میں پیش آیا دونوں صحابہ کے چہرے نور سے چمک رہے تھے اور آنکھوں میں بے تحاشہ چمک تھی وہاں موجود لوگوں نے صحابہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا چاھیں تو ان پر خوف طاری ہو گیا کوئی بھی انکی آنکھوں میں نہ دیکھ سکا۔
دونوں مقدس اجساد خاکی کو بغداد سے تیس میل دور حضرت سلیمان فارسی پارک لے جایا گیا جہاں پر ان دونوں جلیل القدر صحابہ کو حضرت سلیمان فارسی کے مدفون کے قریب لحد میں اتارا گیا اس معجزاتی واقعے سے سائنسدان،فلسفی، ڈاکٹر ،دانشوراور اہل علم و بصیرت اور اکابرین حیرت زدہ رہ گئے اور اللہ کی قدرت کے قائل ہو گئے جس وقت صحابہ کرام کو مزارات میں منتقل کیا جا رہا تھا فضا اللہ ھو اکبر کے فلک شگاف نعروں ،فوجی بینڈز اور توپوں کی گھن گرج سے گونج رہی تھی اور عراقی فضائیہ کے طیارے فضا میں غوطے لگا لگا کر ان کو سلامی پیش کر رہے تھے یہ محیر العقول واقعہ 1932 میں رونما ہوا تھا اس واقعے کو دنیا بھر کے اخباروں نے شائع کیا عراقی حکومت نے اس واقعے کی فلم تیار کی تھی اس فلم کو دیکھ کر بھی بے شمار غیر مسلم ایمان لے آئے تھے دنیا بھر اور ہندوستان کے اخبارات میں بھی اس وقت اس واقعے کا آنکھوں دیکھا حال چھپا تھا ۔تفصیل اس واقعے کی یہ ہے کہ حضرت حذیفہ بن الیمانی اور حضرت جابر بن عبداللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی مقرب صحابہ تھے وہ جنگ و امن میں حضور ۖ کے ساتھ رہتے تھے ۔
انہوں نے حضور کے ہمراہ کتنے ہی غزوات میں حصہ لیا اور اسلام کی سر بلندی کی خاطر کسی قربانی سے گریز نہیں کیا حضرت عمر نے حضرت حذیفہ کو مدائن کا گورنر مقرر کیا تھا وہ حضرت علی کے دور میں بھی مدائن کے گورنر رہے ان کا انتقال مدائن میں ہوا وہ وہیں مدفون ہوئے حضرت جابر بن عبداللہ بھی حضرت حذیفہ کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت قریب تھے کئی احادیث بھی ان دونوں صحابہ کرام سے مروی ہیں ان کا انتقال بھی 94سال کی عمر میں مدائن میں ہوا ان کو بھی حضرت حذیفہ کے پہلو میں مدائن میں ہی دفن کیا گیا 1932 میں عراق کے شاہ فیصل نے خواب دیکھا ایک بزرگ ان سے مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں اے بادشاہ!میں حذیفہ بن الیمانی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں میرے اور میرے ساتھی جابر بن عبداللہ کی قبروں کو یہاں سے کسی محفوظ جگہ منتقل کر دو کیونکہ میری قبر میں پانی اتر گیا ہے اور جابر بن عبداللہ کے مزار میں بھی نمی در آئی ہے ۔
جلد ہی اس میں بھی پانی آ جائے گا شاہ عراق اپنی مصروفیت کی وجہ سے خواب والا واقعہ بھلا بیٹھے حضرت حذیفہ ایک بار پھر بادشاہ کے خواب میں آئے اور مزارات کی منتقلی کی تاکید کی لیکن شاہ عراق امور سلطنت میں کھو کر پھر بھول گئے انہوں نے کسی سے اس خواب کا ذکر بھی نہ کیا ۔تیسری مرتبہ حضرت حذیفہ عراق کے مفتی اعظم کے خواب میں آئے اور فرمایا میں دو مرتبہ بادشا کے خواب میں آ کر انہیں تاکید کر چکا ہوںپ جاکر بادشاہ کو یاد دلائیں کہ وہ جلد از جلد مزارات کی منتقلی کا بندوبست کریں مفتی اعظم بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خواب کے بارے میں مطلع کیا بادشاہ نے تصدیق کی کہ وہ ان کے خواب میں آ کر مطلع کر چکے ہیں لیکن مصروفیت کی وجہ سے اور اس بات کا ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے کہ واقعی مزارات میں پانی داخل ہو چکا ہے میں نے کوئی کاروائی کرنے سے گریز کیا اور کسی سے ذکر بھی نہیں کیا ۔۔
شاہ فیصل وزیر اعظم نوری ال سعید پاشا اور مفتی اعظم کی باہمی مشاورت سے مزارات کی قریبی زمین کا ارضیاتی سروے کرایا گیا اور اس کے بعد زمین کی کھدائی کی گئی کہ محض خواب کی بنا پر مزارات کی بے حرمتی نہ ہو چنانچہ محکمہ تعمیرات کے انجینئروں نے مفتی اعظم کے سامنے مزارات سے دریا کے رخ پر بیس فٹ کے فاصلے پر بورنگ کرائی اور اس بورنگ کے نتیجے میں نکلنے والی مٹی کو تجزیہ کے لیے بھیجا رپورٹ کے نتیجے میں کھدائی سے ملنے والی مٹی میں نمی کا شائبہ تک نہ تھا رپورٹ ملنے کے بعد سب بے فکر ہو گئے اس رپورٹ کے ملنے کے ایک دن اور ایک رات بعد حضرت حذیفہ پھر مفتی اعظم کے خواب میں آئے اور ناراض ہو کر شکایت کی کہ ہماری ہدایت پر توجہ نہیں دی گئی مفتی اعظم نے خواب کے بارے میں بادشاہ سے رابطہ کیا تو وہ مفتی اعظم پر سخت ناراض ہوئے کہ ہم نے تو آپ کے کہنے پر ارضیاتی سروے بھی کرا لیا مٹی کھدائی کی رپورٹ بھی دیکھ لی آپ خواب کو خواہ مخواہ اہمیت دے رہے ہیں اس مرتبہ مفتی اعظم ڈٹ گئے کہ حضرت جلیل القدر صحابی کا بار بار خواب میں آنا اور اصرار بلا وجہ نہیں ہو سکتا۔
چنانچہ انہوں نے بادشاہ کو مجبور کیا کہ مزارات کو منتقل کیا جائے شاہ فیصل نے مفتی اعظم کو کہا کہ وہ فتویٰ جاری کریں مزارات کی منتقلی کے لیئے چنانچہ شاہ عراق ،وزیر اعظم اور مفتی اعظم کی مشاورت سے قبروں کو کھولنے اور دونوں صحابہ کرام کے جسد خاکی کو دریائے دجلہ سے دور محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا فتویٰ حاصل کر لیا اخبارات اور ذرائع ابلاغ کو یہ خبر جاری کر دی گئی چونکہ یہ خبر پوری دنیا میں پھیل چکی تھی اور لاکھوں حجاج حج میں مصروف تھے وہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے انہوں نے شاہ عراق سے درخواست کہ قبر کشائی کو مزید چند روز موخر کیا جائے تاکہ وہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں ہزاروں افراد کی درخواست پر شاہ فیصل نے قبر کشائی کی تاریخ 10ذی الحجہ سے بڑھا کر بیس ذی الحجہ کر دی بیس ذی الحجہ 1351ھ کو قدیم قبرستان کے قریب میدان میں ہزاروں افراد اور دنیا بھر سے آئے ہوئے ۔
ذرائع ابلاغ کے نمائیندے موجود تھے فوٹو گرافر بھی اس واقعے کو فلم بند کرنے کو بے تاب تھے اس واقعے کو دیکھنے کے لیے مسلم اور غیر مسلم بڑی تعداد میں دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے تھے تمام انتظامات مکمل ہونے کے بعد اور کرینوں کی تنصیب کے بعد قبر کشائی کی تقریب شروع ہوئی پہلے حضرت حذیفہ کی قبر کشائی کی گئی پتھر مٹی اور ملبہ ہٹانے کے بعد مقتدر صحابہ کا جسم سٹریچر پر رکھا گیا جو بعد میں کرین سے اٹھا کر پہلے سے تیار شدہ شیشے کے تابوت میں رکھا گیا تو سب نے دیکھا کہ قبر میں پانی آ چکا تھا اسٹریچر کو جس پر حضرت حذیفہ کا جسد خاکی رکھا گیا تھا اسے بادشاہ،مفتی اعظم اور وزیر اعظم چلا کر کرین تک لائے تھے اسی طرح دوسرے صحابی حضرت جابر بن عبداللہ کا جسد خاکی شیشے کے تابوت میں منتقل کیا گیا ۔
1947میں پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستانی اخباروں میں اس واقعے کی روداد چھپی تھی اس چشم کشا اور کرشماتی واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کی قدرت انسانی سمجھ سے بالا تر ہے اور اللہ اپنے برگزیدہ بندوں اور نبیوں کی ان کے وصال کے بعد بھی نگہداشت کرتا ہے اور ان کے کارنامے رہتی دنیا تک انصاف کا بول بالا کرتے ہیں (بشکریہ محمود عالم صدیقی)
تحریر : مسز جمشید خاکوانی