تحریر: ممتاز حیدر
باچاخان یونیورسٹی چارسدہ پر دہشتگردوں کے حملے کے نتیجے میں کیمسٹری کے پروفیسر سمیت 25 طلباء شہید ہوگئے ہیں۔ پاک فوج نے آپریشن کے دوران 6 دہشتگردوں کو ہلاک کرکے آپریشن کلیئرنس شروع کردیا ہے ، دہشتگردوں نے صبح کے وقت یونیورسٹی ہاسٹل میں گھس کر فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا جس سے طلبہ میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔یونیورسٹی میں فوج کی نگرانی میں سرچ آپریشن کیاگیا اور ہوسٹل میں محصور تمام طلبہ کو باہر نکال لیا گیا ۔ پاک فضائیہ کی جانب سے یونیورسٹی کی فضائی نگرانی بھی کی گئی ۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر فضل رحیم کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں سکیورٹی انتظامات بہت بہتر ہیں۔ وہ صبح یونیورسٹی آ رہے تھے کہ اسی دوران انہیں راستے میں حملے کی اطلاع ملی ، مسلح دہشتگرد یونیورسٹی کی پچھلی طرف سے اندر داخل ہوئے۔
حملے کی اطلاع ملتے ہی طلبہ کے والدین کی بڑی تعداد جائے حادثہ پر پہنچ گئی۔ ایک طالبعلم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر ون سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اس لئے ممکن ہے کہ حملہ آور ہاسٹل نمبر ایک کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور فائرنگ کی ، حملے میں یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حامد حسین بھی شہید ہوگئے۔حکومت اور پاک فوج کے اکٹھے ایک پلیٹ فارم پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں سے ملک دشمن طاقتیں بوکھلا گئی ہیں، اس لئے اب وہ پولیس اور فوج کے علاوہ معصوم عوام کو بھی اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔سکیورٹی فورسز کے جوان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں مگر اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کوبھی اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
دہشت گردوں کی جانب سے اپنے مطلوبہ اہداف کو باآسانی نشانہ بنالینا بہت تشویشناک ہے۔ دہشت گردی پاکستان کو غیر مستحکم اور عالمی برادری کی نظر میں غیر محفوظ ملک کا تاثر ابھارنے کی گھنائونی سازش ہے جسے سختی سے ناکام بنانا ہوگا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باہمی مشاورت سے ایک نئی قا بل عمل پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر بننے والا ملک ہے اس کے خلاف ہونے والی تمام سازشیں د م توڑ جائیں گی اگر حکمران مخلص رہیں اور ہر اس ہاتھ کو توڑ ڈالنے کا عزم کریں جو پاکستان کی طرف بڑھے۔ایک ایسی مضبوط پالیسی ہو جس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دشمن قوتیں اور ان کے آلہ کارملک میں مسلسل دہشتگردی کروارہے ہیں۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر قومی اتحاد دشمن کی نظروں میں کھٹک رہا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں افراتفری اور انتشار پھیلاناچاہتے ہیں۔ہمیں بحیثیت قوم اتحادویکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانا ہوگا۔سابقہ حکومتوں کی بزدلانہ اور ناقص پالیسیوں کی بدولت آج دہشتگردی ہمارے لئے ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ دہشتگردی ہمارے گلی محلوں تک پہنچ چکی ہے۔نائن الیون سے اب تک ملکی معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زائد کانقصان اور 50 ہزار قیمتی جانوں کاضیاع ہوچکا ہے۔ اتنی قربانیاں کسی اور ملک نے نہیںدیں جتنی پاکستان نے دیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشتگردعناصر کے اصل محرکات اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں تک رسائی حاصل کرکے ان کو کیفرکردار تک پہنچایاجائے۔ پاکستان مزیدکسی بھی قسم کے عدم استحکام کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا کہ چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ بھارتی وزیر دفاع کی دھمکیوں کا نتیجہ نظر آرہا ہے۔ پشاور آرمی پبلک سکول کی طرح حالیہ حملہ میں بھی بھارت سرکار اور اس کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ حکومت مصلحت پسندی چھوڑ کر انڈیا کی دہشت گردی کو پوری دنیا پر بے نقاب کرے۔ معصوم طلباء کو نشانہ بنانابدترین دہشت گردی ہے۔ بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل کرملک میں دہشت گردی کی آگ بھڑکانے والے تکفیری گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کی پاکستان کو کھلے عام دھمکیوں کے بعد پہلے پشاور میں چیک پوسٹ اور اس سے اگلے دن ہی چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ سے ساری صورتحال کھل کرواضح ہو چکی ہے۔
بھارت پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی کیلئے تکفیری گروہوں کو استعمال کر رہا ہے۔ افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانے دہشت گردی کے اڈے بن چکے ہیں جہاں دہشت گردوں کو تربیت دیکر خیبر پی کے اور ملک کے دیگر حصوں میں داخل کیا جارہا ہے۔ نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی سرکارایک طرف پاکستان سے دوستی اور مذاکرات کی باتیں کرتی ہے اور دوسری جانب چارسدہ یونیورسٹی جیسے حملے کروائے جارہے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ازلی دشمن بھارت کی چانکیائی سیاست کے دھوکہ میں نہ آئیں اورہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کی دہشت گردی کو تمام بین الاقوامی فورمز پر بے نقاب کیا جائے۔ خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں کی جانب سے متعدد بار نشانہ بنایا گیا جس میں معصوم بچوں سمیت کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، گذشتہ ہفتے بھی سیکیورٹی خدشات اور دھمکی آمیز خطوط ملنے کے بعد پشاور میں سرکاری اور نجی اسکولوں کو بند کردیا گیا تھا۔
20 جنوری 2016 کو پاجا خان یونیورسٹی میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے میں 20 افراد شہید ہوئے ۔ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 130 بچوں سمیت 150 افراد شہید ہوئے۔ یکم اکتوبر 2014 کو پشاور میں ہی ایک اسکول پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تھا جس میں سکول کی خاتون ٹیچر شہید اور 2 بچے زخمی ہوئے تھے۔ 18 نومبر 2014 کو پاک افغان سرحد پر واقع کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پارا چنار میں ایک سکول وین کو بم سے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں گاڑی کا ڈرائیور سمیت ایک بچہ شہید ہوا تھا۔ 29 اکتوبر 2015 کو خیبر پختونخوا میں چارسدہ میں شبقدر کے علاقے میں 2 سرکاری سکولوں کے سامنے نامعلوم افراد نے فائرنگ کی تاہم اس فائرنگ سے کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا۔ 3 نومبر 2015 کو خیبر پختونخوا میں ہی نوشہرہ میں 3 حملہ آوروں نے ایک گرلز سکول کے باہر ہوائی فائرنگ کی تھی ،سکول کے باہر فائرنگ کرنے والے افراد کو پولیس گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ سانحہ چار سدہ یونیورسٹی میں بیرونی ہاتھ کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
افغانستان کے ساتھ22سوکلومیٹرطویل سرحد پر واقع 2درجن سے زائد بھارتی قونصل خانے کیاکررہے ہیں؟دنیاجانتی ہے کہ وہاں پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کوباقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور انہیں جدیداسلحہ سے لیس کرکے پاکستان میں تخریب کاری کے لئے بھیجا جاتا ہے۔سی آئی اے،راء اور موساد نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو۔دہشت گردی کی فضاء سوچی سمجھی سازش کانتیجہ ہے جس کامقصد پاکستان کوعالمی دنیا سے الگ کرناہے۔دین اسلام تو سلامتی کا دین ہے ۔دین اسلام تو کفار دشمنوں کے بھی جان ومال کی حفاظت کا درس دیتا ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دشمنوں کو معاف کر دینے کی اعلیٰ مثال قائم کی جب مکہ فتح ہوا اور اس وقت کے سب دہشت گرد سر جھکائے اپنی گردنوں پر تلوار چلنے کے منتظر تھے۔ اس وقت بڑے بڑے رؤسا، سردار سکتے کے عالم میں تھے معلوم نہیں آج ہمارے ساتھ ساتھ کیا سلوک ہوگا…؟ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے ساتھیوں پر جو مظالم کیے آج ہمارے ساتھ بھی وہی برتاؤ ہو گا مگر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ دین اسلام کے ماننے والے دہشت گرد نہیں۔
امن پسند ہیں۔ دین اسلام تو امن کے قیام کا سب سے بڑا درس دیتا ہے لیکن پشاور میں تعلیمی اداروں پر حملے کم از کم دین اسلام کو ماننے والا اس طرح کے گھنائونے واقعے کو انجام نہیں دے سکتا ۔یہ صرف اورصرف اسلام و پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم سازش ہے۔ پشاور میں دہشت گردی کی واردار ت قومی سانحہ ہے۔یہ یونیوسٹی پر حملہ نہیں بلکہ پاکستان پر حملہ’ فساد فی الارض، تعلیمی اداروں کو تالے لگانے اور جہالت پھیلانے کی ناکام کوشش ہے۔ضرب عضب آپریشن کی کامیابی کے بعد دشمن بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ضرب عضب کا جاری رہنا ابھی ضروری ہے لیکن آئندہ کے لئے ایسے واقعات کی روک تھا م بھی کرنی ہے کیونکہ اب پاکستانی قوم کا بہت خون بہہ چکا ۔پاکستانی قوم محب وطن ہے اور دشمن سے مقابلہ کرنا جانتی ہے لیکن اے کاش دشمن سامنے سے آئے۔۔۔دہشت گردوں کے خلاف ایکشن کے لئے جب پوری قوم متحد ہے اور عوام امن چاہتی ہے تو ایوانوں میں سخت ترین سیکورٹی میں بیٹھنے والے حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ ملک کی عوام کا سوچیں۔اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو آئندہ کے لئے عوام انہیں محفوظ ترین ایوانوں میں نہیں پہنچائے گی۔
تحریر: ممتاز حیدر
برائے رابطہ:03349755107