تحریر : میر افسر امان
چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ نے ٢٠١٢ء میں عہدہ سنبھاملنے کے بعد کہا تھا کہ چین میں کرپشن صرف ایک اہم مسئلہ ہی نہیںبلکہ چین کے وجود کو لاحق خطرہ ہے۔ دیکھا جائے تو ہی معاملہ ہمارے پاکستان کا بھی ہے کرپشن نے ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ہیں۔کرپشن کے خلاف مہم میں اشتراکی جماعت نے اپنے تقریاًپونے تین لاکھ عہدیداروں کو بندعنوانی میں ملوث ہونے کی بنا پر سزا دی۔اس مہم میں زیادہ سنگین جرائم میں ملوث بیروکریسی کے اندر ہر سطح تک اثر پہنچا ہے۔ زیادہ سنگین جرائم میں ملو ث مجرمان پر مقدمے چلائے گئے۔اور انہیں پابند سلاسل کیا گیاکچھ کو سزائے موت سنائیں گئیں۔خبروں کے مطابق صدر شی جن پنگ نے گزشتہ سال دفتر سیاسی کے بند کمرے میںاجلاس کے دوران کہا تھا کہ بدعنوانی کے خلاف اپنی جد وجہد میں مجھے زندگی یا موت کی پروہ نہیںہے۔اور نہ ہی اپنی ساکھ تباہ ہونے کا ڈر ہے۔یہ ہے ملک سے محبت اور وفاداری کا مظاہرہ جو چین کے صدر نے کیا۔لگتاہے کہ مسلسل کوشش کے بعد وہ کرپشن پر قابو لیں گے۔
چین میں کرپشن کے کیا طریقے اختیا رکیے گئے۔ جب حکومت خرید فروخت، تجارتی لین دین اور ریاستی اثاثوںکے سودے کرتی ہے تو بولی اور نیلامی کے طریقے نہایت غیر شفاف ہوتے ہیں۔اس طرح سرکاری عہدیدار،بیروکریٹ اور کیمونسٹ جماعتی حکام شفافیت کے فقدان کا ناجائز فائدہ سمیٹتے ہیں۔ اعلیٰ عہد یداروںکے لیے کرپشن کے راستہ بناتے ہیں۔اس کے بدلے انہیں ترقیاں ملتی ہیں۔ درمیانے درجے کے حکام ا ن کو سستی زمینوںتک رسائی،ریاستی بنکوں سے قرضے،حکومتی سبسڈیز،ٹیکسوں میںچھوٹ اور حکومتی ٹھیکوںکی پیشکش کرتے ہیں۔ اس کے بدلے وہ ترقیاںپاتے ہیں۔اس سے منڈیوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔جماعت اور ریاست کی کارکردگی پر بُرا اثر پڑتا ہے۔یہی طریقہ فوج میں بھی رائج ہو گیا ہے۔ اسی قسم کے جرم میںایک سابق جرنیل کو گرفتار کیا گیایہ سیاسی دفتر کے رکن بھی تھے اور مرکزی فوجی کمیشن کے نائب بھی تھے۔ تفشیش کاروں کو ان کے گھر سے نقد روپے،زیوارات،اور قیمتی تصاویر کے بڑے ذخیرے ملے۔
جماعت کا الزام تھاکہ تمام تحائف ان کو چھوٹے افسران کی طرف سے دیے گئے تھے جو ترقی کے زینہ چڑھنا چاہتے تھے۔سرکاری ابلاغ کے مطابق مجرم نے اقبال جرم کر لیا ان کو سزا بھی ملتی مگر وہ چند دن بعد وہ کینسر کی وجہ سے فوت ہوگئے۔کیا ہمار ے سندھ کے وزیروںکے گھروں سے نقد ڈال ڈالر نہیں ملے۔ لایچ کے ذریعے ڈالر اسمگل کئے جارہے تھے جنہیں پکڑا گیا کچھ عرصہ قبل اندرون سندھ میں ایک وزیر کے گھر میں سے لاکھوںجلے ہوئے ڈالر کی داستانیں زبان عام نہیں تھیں۔کل پروسوں ہی اسلام آباد کے ایک گھر سے ڈالروں کے بکس نہیں پکڑے گئے جو بلوچستان کے سابق وزیر اعلی کے سیکرٹیری کا گھر ہے ان کو کب سزا ملے گی۔ چین میں بڑی بڑی نجی کمپنیوں میں چینی حکام کے رشتہ دار مشیر لگے ہوئے ہیں جو ان کمپنیوں کو سرکار سے ٹھیکوں کی منظوریاں لے کر دیتے ہیں۔
کیا ہمارے ایک سابق صدر کو لاہور میں کئی ایکڑ پر بنا ہوا بنگلہ ایک پراپرٹی ٹائیکوں نے گفٹ نہیں کیا تھا اور اس کے بدلے سندھ میں سستے ریٹ سے اپنے پرجیکٹ کے لیے زمینیں حاص نہیں کیں؟۔ چین کے سابق صدر زینگ شیائو نے نے مصنوعات کی منظوری کے لئے دوا ساز کمپنیوں سے رشوت کی مد میں آٹھ لاکھ پچاس ہزار ڈالر وصول کئے تھے۔٢٠٠٧ء میں جب زینگ شیائو کی جانب سے منظور شدہ کھانسی کے زہریلا شربت سے پینے سے پاناما میں سو لوگ مر گئے تھے تو ان پر بدعنوانی کا مقدمہ چلا وہ مجرم ثابت ہوئے اور چند ماہ بعد پھانسی چڑھا دئے گئے۔ ہمارے ملک کے کرپٹ لوگ پھانسیوں پر کب چڑیں گے ۔کیا ہمارے ملک کے صدر پر بدعنوانی کے مقدمات قائم نہیں ہوئے تھے ان ہی مقدمات کی وجہ سے ٩ سال جیل میں رہے۔
کیا وہ دنیا میں مسٹر ٹین پرسنٹ اور مسٹر ہنڈرنٹ پرسنٹ مشہور نہیں ہوئے؟ ہمارے عدالتی نظام کی کمزوری کی وجہ سے اُ س وقت ان پر جرم ثابت نہیں ہوا تھا۔ اب پھر نیپ نے اُن کے خلاف مقدمے عدالت میں پیش کئے ہیں۔چین کے صدر شی جن پنگ کی طرح ہمارے صدر تو اتنے طاقت ور نہیں کہ کرپشن کے خلاف کاروائی کرتے البتہ ہمارے فوجی حکمران اور وزیر اعظم نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالا ہوا ہے۔
جبکہ سابق صدر نے اس پر خفا ہو کر فوج کے سربراہ کو مخاطب ہو کر چلنیج کیا تھا کہ میں اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ مگر اب وہ ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔انتظامیہ نے ان کے دستِ راس کو گرفتار کیا ہے۔ بہت سے کرپٹ لوگ ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔اب پھر باہر بیٹھ کر دوباہ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان کے دو سابق وزیر اعظموں پر بھی کرپشن کے مقدمات قائم ہیں۔ ایک وزیر اعظم نے تو ترکی کی خاتون اوّل کی طرف سے پاکستان سیلاب زدگان کو اپنا قیمتی ہار پیش کیا تھا وہ بھی سابق وزیر اعظم کرپشن کر کے اپنی بیگم کے گلے میں ڈال دیا۔جب میڈیانے اس کرپشن کو عام کیا تو شرمندہ ہو کروہ ہار پاکستان کے خزانے میں داخل کیا گیا۔
چانگ کنگ جو جماعت کی قانونی اور داخلی امور کی قائمہ کمیٹی کے سابق رکن ہیں نے رشوت لے کر عدلیہ میں جاری مقدمات میں مخل ہوئے تھے۔اس پر انہیں گرفتار کیا گیا فرد جرم عائد کی گئی۔ پہلی بار کسی قائمہ کمیٹی کے رکن کے خلاف کاروائی کی گئی ہے۔ ان کو جماعت سے بے دخل کر دیا گیا۔اب وہ مقدمہ کے فیصلہ کے انتظار میں ہیں۔ ایک اور جماعتی راہنما بوشیلائی تھے۔جو ٢٠١٣ء میں بدعنوانی اور قتل کے منصوبے میں اپنی بیوی کے ملوث ہونے کی وجہ سے معزول ہوئے ان کے خلاف تفتیش ہورہی ہے۔ اس وقت خاص خاص لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے عام کرپٹ لو گ بچے ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر صدر شی کی قانون کی پابندی کی مہم ہے۔
تمام لوگوں کو اپنے اثاثے پبلک کرنے کا کہا گیاہے۔ گو کہ بیروکریسی نے چین میں اس مہم کے رد میں کام کی رفتار سست کر دی ہے جس سے چین کی معیشت کی رفتار دھیمی پڑ گئی ہے مگر چین کے صدر شی اس کرپشن کی مہم کو کامیاب کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ عوام میں صدر شی کی کرپشن کے خلاف مہم بہت مقبول ہے ۔ٹرانسپرسی انٹر نیشنل نے بھی چین کو عوامی رجسٹروں کو بہتر بنانے کا مشورہ دیا ہے۔
قارئین! چین کی کرپشن کی داستان سنانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ جیسے چین میں بڑے بڑے لوگوں کو جرم ثابت ہونے پر قراراقعی ہی سزا دی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی جس کسی نے بھی کرپشن کی ہے اس کو گرفتار کیا جائے اور قانون کے تقاضے پورے کر کے قرار واقعی سزا دی جائے کسی کے بھی منصب کا خیال نہ رکھ جائے یہی پاکستان کے عوام کی رائے ہے۔ اللہ ہمارے پاکستان کو کرپٹ حکمرانوں سے بچائے آمین۔
تحریر : میر افسر امان