تحریر : سید فیضان رضا
پاکستان میں باطل کے پھیلائے ہوئے الحادی جال کا دوسرا حصہ حاضرِ خدمت ہے۔پہلے حصے میں الحاد کا مختصر تعارف پیش کیا گیا تھا۔الحاد جسے ملحدین ”الحادِ عظیم” کہتے ہیں (دنیا کی کم و بیش 2 فیصد آبادی ہونے پر)کن مذاہب میں اور کیوں زیادہ مقبول ہے اس پر ایک مختصر نظر ڈال لیتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا مذہب عیسائیت ہے۔جدید عیسائیت نے مذہب اور معاشرے کو الگ الگ کر کے اس کے دو طبقات بنا ڈالے، کیتھولک (Catholic) اور پروٹسٹنٹ (Protestant) ۔کیتھولک وہ طبقہ ہے جو مذہب اور معاشرے کو ایک دوسرے میں مدغم سمجھتا ہے اور مذہبِ عیسائیت سے مضبوطی سے جڑا ہے جبکہ پروٹسٹنٹ کے نزدیک مذہب کو صرف چرچ تک محدود رکھنا چاہیے۔چنانچہ عملی زندگی میں مذہب کی غیر موجودگی پروٹسٹنٹس کو عیسائیت سے دور لیتی گئی ۔نتیجتاًیہ طبقہ لادینیت کی طرف گامزن ہوا۔یہی طبقہ الحاد کا سب سے بڑا شکار تھا۔
جیسا کہ پچھلے کالم میں تذکرہ ہوا کہ دنیا میں لادینیت کا سب سے زیادہ اضافہ کینیڈا، امریکہ اور یورپ میںہوا اس کی وجہ یہی پروٹسٹنٹس ہیں جو اصل میں پہلے ہی مذہب سے بے زار ہوچکے تھے۔ اسی طرح ہندوازم کے متعلق بھی کلام ہو چکا کہ بت پرستی اس دور کا واقعہ ہے جب اس کے ماننے والے لوگوں میں فہم و فراست اور شعور کا فقدان تھا، ہندو دھرم جس نے تاریخ میں علم و دانش اور تخلیقات میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مذہب میں فہم و فراست کا فقدان ہی تھا جس نے انہیں اپنے ہی بنائے ہوئے بتوں اور مورتیوں کے آگے ماتھا ٹیکنے پر مجبور کیا۔مگر جدید ہندو نسل میں دوسرے مذاہب خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ مطابقت نے عقل و شعور کے دروازے کھولے ہیں اور بت پرستی جس کو عقل تسلیم نہیں کرتی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
الحاد میں اضافے کے لحاظ سے ہندودھرم دوسرے نمبر پر آتا ہے۔اسلام اور یہودیت اپنے مذہب کے ساتھ نسبتاً زیادہ مضبوطی سے جڑے ہیں۔ تاہم یہودیت سیکولرازم کا شکار ہو کر یہودیت سے ضرور دور ہوئی ہے مگر الحاد کی طرف راغب نہیں ہوئی۔دینِ اسلام اس قدر جامع، مربوط اور ہمہ گیر ہے کہ دائرہ اسلام میں آنے کے بعدانسان سچائی کو اتنا قریب سے دیکھ لیتا ہے وہ مذہب چھوڑنے کے خیال کو بھی لغو اور بے معنی سمجھتاہے۔اس لیے مسلمان باوجود اسلام سے عملی طور پر دور ہونے کے وجودِ خدا سے انکار کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
پاکستان میں الحاد ی سازشوں کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے آپ کو ذہن سازی کے عمل یعنی ”برین واشنگ” کو سمجھنا ضروری ہوگا آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق ‘برین واشنگ’ کی اصطلاح کا آغاز1950 کی دہائی میں ہوا جب میامی کے ایک صحافی مائیکل ہنٹر نے اسے امریکن فوجیوں کی کورین وار میں ذہن سازی کے لیے استعمال کیا ڈک انتھونی نے 1999 میں انکشاف کیا کہ ہنٹر CIA کا سیکرٹ ایجنٹ تھا جسے کمیونزم کے حوالے سے عام عوام کی ذہن سازی کے لیے استعمال کیا گیا۔برین واشنگ کا استعمال اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود انسان۔سب سے پہلی برین واشنگ حضرت حوا کی گئی جب شیطان نے گندم کا دانہ کھانے کے لیے ان کی ذہن سازی کی۔برین واشنگ یا ذہن سازی وہ تکنیک ہے جس کے ذریعے انسانی فطرت، عقائد، نظریات اور رویوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
ذہن سازی کا یہ عمل اتنا مکمل اور پختہ ہوتا ہے کہBrainwashee (جس کی ذہن سازی کی گئی ہو) یہ مان نے سے یکسر انکاری ہوتا ہے کہ وہ Brainwashed ہے بلکہ وہ اسے ہی حقیقت سمجھتا ہے جو اس کو سمجھا دی گئی ہو۔ذہن سازی کے لیے معمول کے ذہن اور شعور پر پر مکمل تصرف ضروری ہے۔اس لیے ماہرِ نفسیات مختلف طریقے اختیا ر کرتے ہیں جن میں بھوک، پیاس ،خواہشات اور نیندوغیرہ شامل ہیں۔ہپناٹزم، مسمریزم اور ٹیلی پیتھی وغیرہ ذہن کو کنٹرول کرنے کے ہی طریقے ہیں۔ برین واشنگ کو سمجھنے کی بہترین مثال حسن بن صباح ہے
جو ہپنا ٹزم اور حشیش کے ذریعے حشیشین (حسن بن صباح کے فدائی) کی اس قدر مضبوط ذہن سازی کرتا تھا کہ وہ اپنی جان تک قربان کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔اس مکمل عرصے میں وہ ایک نیند اور غنودگی کے عالم میں ہوتے تھے۔ عملِ تنویم (ہپناٹزم) کا باقاعدہ استعمال سب سے پہلے حسن بن صباح نے ہی کیا تھا، اس سے پہلے یہ علم ایک نامعلوم حیثیت سے موجود تھا۔اس نے مشہور قلعہ المُوت میں اپنی حکومت قائم کی اور یہیں مشہور اور بدنامِ زمانہ جنت تعمیر کی گئی جہاں حسن بن صباح نے 35 برس تک حکمرانی کی اور نوے سال کی عمر میں طبعی موت مرا کیونکہ کسی کو اس کے قلعہ کے قریب آنے کی جرات بھی نہیں ہوئی۔
حسن بن صباح کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اِس کے فدائین تھے جو بعد میں حشیشین کے نام سے بھی مشہور ہوئے کیونکہ وہ حشیش (ایک قسم کی بھنگ) کا نشہ کرتے تھے۔ یہ فدائین تھے کیا؟ اس بات کا اندازہ آپ ان واقعات سے لگا سکتے ہیں ۔ جب حسن بن صباح کا فتنہ بہت بڑھ چُکا تو سلجوقی سلطان ملک شاہ نے اس کے خلاف لشکر کشی کا فیصلہ کیا۔ لشکرکشی سے پہلے ایک قاصد کو یہ پیغام دے کر بھیجا گیا کہ حسن بن صباح خود کو سلطنت کے حوالے کردے اور اپنی منفی سرگرمیاں ختم کردے ورنہ اُس کے قلعہ پر چڑھائی کردی جائیگی۔ ایلچی نے یہ پیغام قلعہ المُوت میں جا کر حسن بن صباح کو سُنایا۔
”میں کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتا” حسن بن صباح نے کہا، ”اور نظام الملک سے کہنا کہ میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں یہاں کا رُخ مت کرنا ورنہ تمہاری فوج کا انجام بہت بُرا ہوگا”۔ایلچی یہ پیغام لے کر جانے لگا تو حسن بن صباح نے اُسے روک لیا۔ ”ٹھہرو شاید تم میری باتوں کا یقین نہ کرو میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں”۔اس کے بعد حسن بن صباح کے حکم سے کچھ فدائین قطار بنا کر وہاں کھڑے ہوگئے۔اس نے ایک فدائی کو بُلا کر خنجرپکڑایا اور کہا، ”اِسے اپنے سینے میں اُتار لو”۔
اُس فدائی نے بلند آواز میں نعرہ لگایا ”یا شیخ الجبل تیرے نام پر” اور خنجر اپنے دل میں اُتار لیا۔اس کے بعد ایک دوسرے فدائی کو بلا کر حکم دیا کہ بلندی پر جا کر سر کے بل چھلانگ لگا دو ۔وہ خاموشی سے گیا اور چھت سے چھلانگ لگادی اور اپنی گردن تڑوا بیٹھا۔ایسے ہی ایک فدائی کو پانی میں ڈوبنے کو کہا گیا اور اُس نے بخوشی اپنے آپ کو پانی کی تُند و تیز لہروں کے حوالے کردیا۔
تحریر : سید فیضان رضا
03457227990
faizanshah.raza@gmail.com