counter easy hit

پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے تحریک پاکستان جیسے جذبوں اور اتحاد ملی کی ضرورت ہے

Pakistan

Pakistan

تحریر: وقار احمد
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ ہندوستان کا تقسیم ہونا اور پاکستان کا وجود میں آجانا تاریخ کی ایک انہونی کہانی ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے جس پربانی پاکستان محمد علی جناح اوران کے رفقائے کارخراج تحسین پاتے رہیں گے۔ کسی نظریے کی خاطرہزاروں سال سے اکٹھے بسنے والے معاشرے کاتقسیم ہونا،بالخصوص جب ان کے خون ایک ہوں اور رنگ ونسل کاتفاوت موجودنہ ہو، جدید دنیا میں ایک حیران کن امرہے۔اس سارے قضیے میں اگر کوئی کمال ہے تو نظریے کا ہے جسے اقبال مرحوم نے شاعری کا لباس یوں پہنایاہے:
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ان کی ملت کا ہے ملک و نصب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

یہ وہی فکرتھی جس کااظہار تاجدار کونینeنے اس وقت کیاتھا جب قریش مکہ آپeکے پاس آئے کہ آپ ہمارے بیٹے ،ہمارا خون اورہماری نسل میں سے ہے۔ آپ اپنا نظریہ چھوڑدیں،ہمارے بتوں کو برا بھلاکہنا چھوڑدیں، اگرآپ eکو دولت کی خواہش ہے توہم آپ کو دے دیتے ہیں، سرداری اور قیادت چاہتے توہم اس کا تاج بھی آپ کے سرپرسجادیتے ہیں اور اگراعلیٰ رشتے کی ضرورت ہے توآپ جس دوشیزہ سے کہتے ہیں، ہم اس کو آپe کے عقد میں دے دیتے ہیں۔ آپ کو(نعوذباللہ) دیوانگی آتی ہے یاکسی بدروح کاسایہ ہے تو آپ کاعلاج کروادیتے ہیں مگر یہ چھوڑیے!لات ومنات کاانکار نہ فرمائیے ،ان کی تضحیک کاسامان مت کیجئے…! ایک اورپیام آپ eکے نام بھیجاگیا کہ اگر آپ اس پر بھی راضی نہیں توپھریوں کرتے ہیں کہ ایک سال ہم سب آپ کے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ اپنی نذرونیاز اورعقیدت اس کے نام کرتے ہیں جبکہ اگلے سال سب ہمارے عقیدے کو تسلیم کریں گے اور ہمارے خداؤں کی پوجاکریں گے ،آخرآپ ہمارے خاندان اورنسل سے ہیں۔یوں بھائیوں،بیٹوں کی تقسیم اورتفرقہ اچھانہیں ہے،اپنے خون سے دشمنی مول لینا مناسب نہیں۔ جواب میں اللہ رب العزت نے سرورکونینe پر قرآن کی یہ آیات نازل کیں: ”کہہ دے اے کافرو! میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو ۔اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔اور نہ میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم نے کی ۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ۔تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے ۔”(الکافرون) اس فکرکو برصغیر میں”دوقومی نظریے” کانام دیاگیا تھا کہ برصغیر میں اس وقت دوقومیں آبادہیں، ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے اتارے ہوئے دین کو ماننے والے اور دوسرے وہ جو اس کا انکار کرنے والے ہیں۔ بانیٔ پاکستان کے الفاظ میں: ”قومیت کی جو بھی تعریف کی جائے مسلمان اس کی رو سے علیحدہ قوم ہیں۔”(22مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب) اس نظریے نے برصغیر کو تقسیم کردیاتھا۔ مسلمانانِ برصغیر گزشتہ ڈیڑھ صدی کے حالات کو دیکھ چکے تھے اور انہیں یہ نظرآرہاتھا کہ وہ اپنے مفادات اور تحفظ نظریات کی پاسبانی اسی صورت کرسکتے ہیں جب انہیں ایک علیحدہ مملکت حاصل ہو،وگرنہ ہندؤوں کے ساتھ ان کی بالادستی کی صورت میں رہنامشکل ہے۔ اس کی بنیاد پربرصغیر میں عظیم تحریک بپاہوئی اور وہ مسلمان، جن کے علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہوناتھے، انھوں نے بھی اس کے لیے بہت فعال کرداراداکیاکیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جو صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے تحفظ اورترجمانی کاکردار اداکرے گی۔

اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان کا قیام اللہ تعالیٰ کاخاص فضل تھا۔ اس لیے اس کی بقا ء اور ترقی اسی راز میں مضمرہے۔ جس نے اسے وجود بخشاتھا۔ قومیں اپنے نظریات کی بنیاد پر بنتی اور آگے بڑھتی ہیں اور جب وہ نظریات کمزور پڑجاتے ہیں تو قومیں اپنے زوال کی جانب بڑھناشروع ہوجاتی ہیں۔ ایکمعروف بھارتی صحافی کے بقول”پاکستان کی بقا کا راز انڈیا دشمنی جبکہ بھارت کی بقاکاراز سیکولرزم میں ہے۔” (ایک زندگی کافی نہیں۔کلدیپ نائر) سوال یہ ہے کہ انڈیاسے ہماری دشمنی کس بنیاد پر ہے؟یقینانظریے کی بنیادپر،توہمیں اس کو مضبوطی سے تھامناہوگا۔ ہم پاکستان کی تاریخ کاجائزہ لیں تو واضح طورپر نظرآتاہے کہ جب ہم نے اس نظریے سے اعراض کیا،اس سے تعلق کمزور کیا توہم مسائل کاشکار ہوگئے۔ دشمنوں کی سازشیں کامیاب ہوئیں۔حتّٰی کہ پاکستان دولخت ہوگیا۔ ہمارا دایاں بازو بنگال،جس کے لوگوں نے پاکستان کے قیام کے لیے بے پناہ قربانیاں دی تھیں،وہ ہم سے علیحدہ کر دیاگیا۔آج بھی پاکستان کے بڑے بڑے مسائل ہیں۔ وہ نظریہ پاکستان سے اعراض کانتیجہ ہیں۔ذیل میں ہم ان کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ پہلی بات تویہ ہے کہ ملک میں شروع سے ہی قانونی بحران جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں قرآن وحدیث کے مطابق قانون سازی ہی نہیں کی گئی۔ بانیٔ پاکستان نے واضح طورپر کہاتھا کہ اس ملک میں شریعت کاقانون نافذ ہوگا۔ انہوں نے اپنے کئی بیانات میں اس بات کااعادہ کیاکہ قرآن کی موجودگی میں ہمیں کسی اور قانون کواختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ آئین کے دیباچے میں شامل قراردادِ مقاصد بھی ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی سفارش کرتی ہے۔ 1973ء کے قانون میں کہاگیا ہے کہ ملک میں قرآن وحدیث سے متضاد قانون سازی نہیں ہوسکتی ۔ تاہم وطن عزیز میں اسلامی قانون کے نفاذ کی جانب عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جس کی وجہ سے ہم بہت سے مسائل کاشکار ہیں۔ کوئی مسلمان بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ تمام ترانسانی مسائل کاحل اسلام کی مقررہ حدود اور ضوابط میں ہے اوریہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو قیامت تک کے لیے قابل عمل ہے، مگرہم اسلامی قانون سازی اور ان کی تطبیق نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے اخلاقی ،معاشرتی، معاشی اورسیاسی مسائل کاشکارہیں۔اس کاحل یہ ہے کہ اس حوالے سے عملی طورپرقدم بڑھایاجائے۔

وطن عزیز اس وقت بے شمار معاشی مسائل کا شکار ہے۔ غیرملکی قرضوں میں جھکڑا ہوا،توانائی کا شدید بحران ہے، زراعت بدحالی کی طرف جارہی ہے، صنعتیں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مسائل کا شکارہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے شکنجے ملکی معیشت کو ابتری کی طرف لے جارہے ہیں۔ یہ ساری صورتحال اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اسلام اور نظریہ پاکستان کی قدرنہ کی۔اوّل ملک میں سودی نظام نافذ کیا جوکہ اللہ اورا س کے رسولeسے کھلا اعلان جنگ ہے ۔بھلاکوئی قوم اللہ اور اس کے رسولe کی مخالفت کرکے کیسے فلاح پاسکتی ہے؟ دوم غیروں کی غلامی کے شکنجے اپنے اوپر کس لیے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی معاشی غلامی میں سر دے دیا اور ان کی کڑی شرائط ، سودی قرضے لیتے رہے جن کے ذریعے نہ صرف ملکی معیشت کانقصان ہوا،بلکہ دیگرقومی مفادات کو گروی رکھ دیاگیا۔ سوم اپنے دریابھارت کے حوالے کرکے پانی کے بحران کاشکار ہوگئے۔انڈیاکشمیر میں پاکستانی دریاؤں پرڈیم بنا کر نہ صرف لاکھوں ٹن پانی چوری کررہاہے،جس سے ملک قحط سالی کی طرف جارہاہے اور توانائی کابحران پیدا ہوگیاہے، بلکہ ہرسال اس کی طرف سے آنے والے سیلاب جانی ومالی اورزرعی نقصان کاباعث بن رہے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم کفار کی غلامیوں سے نجات پائیں۔ آئی ایم ایف اورورلڈبینک سے قرضے لیے بغیر بھی پاکستان زندہ رہ سکتاہے۔ اگرحکومت پاکستان اس بات کافیصلہ کرتی ہے توپاکستان کے عوام اس کے لیے تیارہوں گے۔ اس کی مثال عوام پاکستان کے اس وقت کے جذبات سے لی جاسکتی ہے جب سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے یہ اعلان کیاتھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔

علاوہ ازیں میاں نواز شریف کے سابق دور میں پاکستان نے عالمی پابندیاں برداشت کرکے ایٹمی دھماکے کیے ۔اب یہی ایٹم بم پاکستان کااہم دفاعی حصارہے۔ نظریہ پاکستان کو سامنے رکھتے ہوئے کفار کی معاشی غلامیوں سے بھی نجات پانا ضررو ی ہے کیونکہ
وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلَا النَّصَارَی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ۔ (البقرہ:120)
”یہودونصاریٰ آپ سے ہرگز خوش نہیں ہوں گے حتی کہ تم ان کے دین کی پیروی کرنے لگ جاؤ۔” دوسری بات یہ کہ اپنے ازلی دشمن بھارت سے کشمیر کاقبضہ چھڑایاجائے اور پاکستان کے دریاؤں پر بنائے گئے ڈیم اس سے آزاد کروائے جائیں تاکہ ملکی زراعت اورصنعت مزید تباہی سے بچ جائے۔ پاکستان زرخیز زرعی ملک ہے ،اس زراعت سے بھرپور استفادہ کیا جائے تو یہ خطے کے کئی ممالک کوخوراک مہیا کرسکتی ہے۔ اسے اللہ نے بے شمار معدنی وسائل سے نوازاہے۔ان وسائل سے بھی بھرپور استفادے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا محل وقوع بے پناہ معاشی ودفاعی اہمیت کاحامل ہے۔ گوادر، بن قاسم اور کراچی کی بندرگاہیں اس کی معیشت کو بے پناہ تقویت دے سکتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ عالمی ساہوکاروں کی دسیسہ کاریوں سے بچتے ہوئے خودمختار معاشی پالیسی اپنائی جائے۔ پاکستان کے لسانی وصوبائی تعصبات کاحل بھی نظریہ پاکستان میں پنہاں ہے۔اگر ہم اس کی روح کو سمجھ لیتے اوراسے اپنالیتے ہیں تو یہ قوم کے عظیم اتحاد ویگانگت کی بنیاد بن سکتا ہے۔ یہ کلمہ ہی تھاجس نے اس وقت تمام مسلمانوں کو متحد کرکے دیاتھا۔بنگال سے لے کر شمالی مغربی سرحدی صوبے اور مکران کی پہاڑیوں تک سبھی ایک ملت کی لڑی میں پروئے گئے تھے۔ انھوں نے پاکستان کے لیے جدوجہداور عظیم مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ آج بھی اگر پوری قوم کو کوئی چیز متحدکرسکتی ہے تو وہ یہ کلمۂ اسلام”لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ” ہے ۔یہ نسلی ،لسانی، علاقائی وصوبائی افتراق و انتشار کے لیے اکسیربے مثل ہے۔ وطن عزیز پاکستان فرقہ وارانہ انتشار کابھی شکار رہا ہے۔رفتہ رفتہ اس میں تشدد کاعنصر بھی رنگ جماتاگیا۔ جس نے ملک کوبہت زیادہ نقصان پہنچایااور عظیم ملی اتحاد میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس نے فرقہ وارانہ قتل وغارت کی شکل اختیار کرلی۔ا س میں اس قدر شدت آتی گئی کہ یہ ملکی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بننے لگا۔ اس کے پھلنے پھولنے کی وجہ یہ تھی کہ علماء اور حکمرانوں نے اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں ادانہ کیں۔آج اگراس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے توصرف اسلام کے ذریعے اور قوم میں ایک ملت،ایک جسد کااحساس جنم دے کر۔علاوہ ازیں اس وقت جو سب سے اہم مسئلہ ہمیں بحیثیت قوم درپیش ہے وہ بدامنی اوردہشت گردی کاہے۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگراسلام کو بحیثیت مکمل ضابطہ حیات ہم اپنالیتے اور ہمارے مذہبی وسیاسی زعما متحد ہوکر پالیسی سازی کرتے اورقوم کی ذہن سازی کرتے تو ہمیں ایسے مسائل کاسامنا نہ کرنا پڑتا مگر بسا آرزو کہ خاک شدہ پاکستان کے دشمن ممالک بالخصوص بھارت یہاں بدامنی پھیلانے اورپاکستان کوسلامتی اور دفاع کے اعتبارسے مفلوج کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگا رہاہے۔ یہ بات تواب زبان زدعام ہے کہ بھارتی ایجنسیاں افغانستان میں امریکہ اور دیگر ممالک سے مل کر پاکستان میں دہشت گردی کروا رہی ہیں، علیحدگی کی تحریکوں کوکھڑا کررہی ہیں، جبکہ ہمارے حکمران پھر بھارت سے دوستی دوستی اور”مذاق رات”کھیلنے کے لیے مصر ہیں۔ بھارت ہمارا ازلی نظریاتی اورتزویراتی دشمن ہے جس سے دوستی کرنا تعلقات اور تجارت بڑھانا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔امریکہ کی غلامی سے بھی نکلنے کی ضرورت ہے جو ہمیشہ سے ہی ہمارے حکمرانوں کو ”بلیک میل” کرتارہا ہے۔

Corruption

Corruption

بدعنوانی ہماری جڑوں کو کاٹ رہی ہے۔ یہ ایک ایسامرض ہے جس کاالزام صرف حکمرانوں کو دینا درست نہیں،ہماراعمومی قومی مزاج یہی بن چکاہے۔ اعلیٰ درجے کے آفیسرسے لے کر سکول کے چپڑاسی اور خاکروب تک اکثریت اپنے کام سے مخلص نہیں ہیں۔ حکومتی اور انتظامی سطح پربدعنوانی نے نہ صرف معاشی بلکہ اخلاقی طورپر بھی ہمیں غیرذمہ دار بنادیاہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کاحل کیاہے؟ کیا صرف قانون سازی سے یہ مسئلہ حل ہوگا یا صرف نیب جیسے احتسابی ادارے تشکیل دینے سے؟اس کے لیے ہمیں پھر تعمیر ملت کے ان جذبوں کو اجاگرکرناہوگا جو پاکستان کے قیام کے وقت تھے۔ اس کے علاوہ اسلام کے سنہری اصولوں کی ترویج کرناہوگی، خداخوفی کوعام کرناہوگا۔ تعلیم کی بات کریں توبہت سے لوگ مسائل کی وجہ تعلیم کے عام نہ ہونے کوقرار دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو روزبروز تعلیمی ادارے اور ان میں پڑھنے والے طلباکی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شرح خواندگی بڑھتی جارہی ہے مگرپھر ہم زوال کاشکار کیوں ہوتے جارہے ہیں؟مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم کو قوم کی تربیت و نشوونما کاذریعہ نہیں بنایاگیا۔ بلکہ اسے محض حصول روزگار کاوسیلہ بنادیاگیاہے۔نصاب تعلیم کوسیکولر ائز اورنظریہ پاکستان اور اسلامی شعار اقدار سے بیگانہ کیاجارہاہے۔اس کے ذریعے طلباکومرعوبیت اور غلامی کادرس اسلام دیاجارہا ہے۔ ذریعہ تعلیم غیرملکی زبان کوقرار دے کرجہاں طلبا کی علمی نشوونماکے راستے میں ایک بہت بڑی دیوار کھڑی کردی گئی،وہیں انہیں تہذیبی طورپر بھی مفلوج کیا جارہاہے اور نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں وہ نسل میسرنہیں آرہی جو پاکستان اور اسلام سے مخلص اور ملک وملت کی تعمیر کے جذبے سے سرشارہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام، نظریہ پاکستان اور تاریخ پاکستان کو نصاب کا جزو بنایا جائے۔ طلباکی فنی اورفکری تربیت بھی کی جائے۔ پاکستان کے دشمن قوم میں مایوسی پھیلاناچاہتے ہیں اور وہ اس میں کسی حدتک کامیاب بھی ہیں۔ قوم اور ملت کااحساس بالخصوص نسل نومیں ختم کیاجارہاہے۔ پاکستان کی اہمیت ان کی نظروں میں مایوس کن حد تک ختم ہوتی جارہی ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے ۔اس حوالے سے حکمرانوں اور میڈیا کوبالخصوص اور دیگر موثر طبقات کواپناکردار اداکرنا چاہیے۔قوم میں وہی جذبے اجاگر کرنے چاہیے جنھوں نے اس ملک کی بنیادوں کوخون فراہم کیا تھا۔یہی جذبے پاکستان کی تعمیروترقی اورمسائل کاحل نکال سکتے ہیں…!

تحریر: وقار احمد