تحریر : وقار احمد اعوان
ملک خداداد کو آزاد ہوئے 70 سال کو عرصہ ہو چلا ہے، ان ستر سالوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا، ہمارے بزرگوں، ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے کیا چھوڑا، ہماری روایات کیا تھیں؟ کیا ہیں؟ اور مستقبل میں ان کا کیا حال ہونے والاہے ؟ہم کہاں تھے ؟ ہماری پہچان کیا تھی ؟ کیا ہے؟ اور آگے جاکر کیا ہونے والی ہے ؟یہ تمام سوالات ہر اس انسان سے جڑے ہوئے ہیں جو اس عرض پاک میں رہتا ہے۔۔سانس لیتا ہے۔زندگی جیتا ہے۔۔
اگر تو ہم ان سوالات کے جوابات اپنی آئندہ نسلوں کو دینے کے قابل ہیں تو یقینا ہم ایک بامقصد زندگی گزاررہے ہیں لیکن اگر ہم ایسا کرنے سے قاصر نظر آئے تو وہ وقت دورنہیںہوگا کہ ہمارا نام نہیںہوگا نام لینے والوں میں۔۔۔خیر وقت کب بدلے ۔۔کب ہماری تقدیریں سنور جائیں یہ صرف اوپر والاہی بہتر طور جان سکتا ہے۔مگر جناب ہر انسان کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہوتاہے اگروہ ایک مقصد کے ساتھ اپنی زندگی کی ڈگر پر چلتا ہے تویقینا حال اور مستقبل تابناک ہونگے۔لیکن اگر اس کے جینے کا کوئی مقصد نہیں تو وہ خود اور اس کے اردگرد کے لوگ بھی نقصان اٹھائیں گے۔اورپھر وہی کہاوت کہ ”اب کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت”۔لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے باشعور پیدا فرما یا ہے اور اسی شعور کو مدنظررکھتے ہوئے وہ اپنے حال اورمستقبل کا فیصلہ ضرور بالضرور کرے گا۔بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں چل نکلی ہے۔۔۔
بات چونکہ ارض پاک پر ہورہی تھی اور ارض پاک پر جتنی بھی بات کی جائے کم ہے کیونکہ اوپر بیان ہواکہ ہم اس دھرتی پر جنم لئے ہوئے ہیں۔۔ہمیں اس دھرتی ماں نے ایک پہچان دی ہے۔۔ہم اس کے باسی اور رکھوالے ہیں ۔۔۔اور جناب ایساتب ہی ممکن ہوپائے گا کہ ہم اس کے رکھوالے کہلا پائیں کہ ہم اس دھرتی ماں کی ترقی اور خوشحالی کے اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیں۔۔پاکستان جواللہ تعالیٰ کی دین ہے۔۔آج اگر میں ،آپ اورہم سب اپنے اپنے لئے کچھ خاص کرنے کی سو چ رکھتے ہیں تویقینا ا س میں ہمارے ملک کی ترقی اور خوشحالی کا عنصر بھی موجودہونا چاہیے ورنہ دوسرے الفاظ میں ہم چند لوگ تو ترقی کرسکیں گے مگر ہمارا ملک اور اس میںبسنے والے کروڑوں لوگ غربت اوربے چارگی میں پسے رہ جائیں گے۔
میں جس طرح خود کے لئے تابناک اورروشن مستقبل چاہتا ہوں ویسے ہی اپنے ملک کے لئے میری سوچ مثبت ہونی چاہیے۔آج اگر میں یا ہم کسی مقام پر ہیں تو یقینا اس ارض پاک کی بدولت ہیں۔۔آج اگر میں اپنے بارے میںسوچتا ہوںتو یقینا میری سوچ کا دائرہ کار اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ اس میں صرف اور صرف میرا ملک اور میرا وطن ہی ہو۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرے وطن میں کیا ہورہاہے؟کیا ٹھیک ہورہاہے اور کیا غلط؟کون اس کی بھلائی چاہتا ہے اورکون اسے تذلیل کی راہوںسے گزار کر صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا ہواہے؟یہ جو ہم اپنے اردگرد دشمنوں کے پیداکردہ حالات دیکھتے ہیں کیا ہم اتنی بھی سکت یا طاقت نہیںرکھتے کہ ہم ان حالات سے اپنے پیار ے وطن کونکال باہر کر لیں۔
۔مانا کہ ہمارے اپنوںنے ہمیں اور اس وطن کو تاریکیوںمیں دھکیل دیا ہے لیکن جناب ایسا بھی نہیں کہ ہم سب مردہ مچھلیاں بن کر پانی کے ساتھ چل پڑے ہیں۔۔آج اگر وطن عزیز مشکل اورکٹھن حالات سے گزر رہاہے تو اس میں ہمارا بھی کہیں نہ کہیں قصوربنتاہے لیکن حالات اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ ہم انہیں ٹھیک نہ کرسکیں۔ماناکہ ملک میں چند مفاد پرستوںنے اہم اداروں کو نقصان پہنچایا ہے لیکن کیا ہم اتنی بھی صلاحیت نہیں رکھتے کہ ان اداروں کو ٹھیک کرسکیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان تمام پہلوئوںپر بھی نظرثانی کرنی ہوگی جن کی وجہ سے ہم دنیا سے کافی پیچھے نظرآتے ہیں۔۔جیسے کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس ملک کے تعلیمی ڈھانچے پرہوتاہے ۔۔ہمیں سب سے پہلے اپنے تعلیمی ڈھانچے پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ہم دیگر اداروں کو جلد ازجلد ٹھیک کرنے کی توبات کرتے ہیںمگر جناب کہ ہم اپنے تعلیمی ڈھانچے میںمثبت تبدیلی کی بات بھی کرتے ہیں۔
افسوس سے کہنا پڑجاتاہے کہ اس وقت ملک میں چار قسم کے بچے تیا رہورہے ہیں۔ہمارا پہلی قسم کا بچہ او لیول اوراے لیول کی تعلیم حاصل کررہاہے۔دوسری قسم کا بچہ پرائیویٹ سکولوںمیں ،تیسری قسم کا بچہ ہمارے انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں سرکاری سکولوںمیں کہ جن کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔اور ہمارا چوتھا بچہ دینی مدارس میں۔اب آپ خود سوچیں کہ جب ایک ملک میں چار اذہان والے بچے تیار ہونگے تو اس ملک کے تعلیمی ڈھانچے کاکیا حال ہوگا ۔۔یہاں یہ سوال ضرور ذہن میں گرد ش کرنے لگتاہے کہ کیا ہمارے ہاں ماہرین کی کمی ہے؟نہیںجناب ایسا بھی نہیں ۔توپھر کیوں ایسا نہیںکیا جارہا؟آپ سوچ رہے ہونگے ایسا کیونکر نہیںہورہا۔ہرسال بجٹ میںبھی اچھاخاصا فنڈ مقرر کیا جاتاہے پھر کیوں۔ہمارے پاس ماہرین کی بھی فوج ٹھنڈے ٹھنڈے کمروںمیں اعلیٰ عہدوںپر براجمان ہیں تو پھر کیوں ملک تعلیمی لحاظ سے ترقی نہیںکررہا ۔۔اس کا آسان سا جواب ہے کہ ہم خود نہیںچاہتے کہ ہمارے ملک کاتعلیمی ڈھانچہ ٹھیک ہوسکے۔کیونکہ ان اعلیٰ عہدوں پر پہنچے والے ہم پاکستانی ہی ہیں؟لیکن جناب میں ان لوگوںکو پاکستانی نہیں کہوں گا جو پاکستان کے مفاد اورترقی کے لئے اپنے دن رات ایک نہیں کرتے۔
بات ہورہی تھی تعلیمی ڈھانچے حکومتی دعوے تو سننے کوملتے ہیںہم نے سکولوںکی حالت ٹھیک کردی ہے۔اس میں اساتذہ کی تعداد بڑھا دی ہے ۔مگر کیا حکومت نے ان سکولوںمیںپڑھانے والے اساتذہ کی کارکردگی کو جانچنے کی کبھی کوشش کی ہے۔ایک عرصہ ہوا سرکاری سکولوںمیں پڑھانے والے اساتذہ کی کارکردگی پر بات ہوتی ہے مگر پھر سمند رکی جھاگ کی طرح ہمارے ارادے بیٹھ جاتے ہیں۔ہمارے ماہرین جوکہ ہم میںسے ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ غریب کا بچہ بھی اعلیٰ اورمعیاری تعلیم حاصل کرے۔آپ لوگوںنے ملک کا آئین تو پڑھا ہی ہوگا۔
اس میں بات کی جاتی ہے بنیادی حقوق کی۔کیا ہم نے کبھی بنیادی حقوق پر بات کی ہے؟کیا ہم بنیادی حقوق بارے کچھ جانتے ہیں؟اگر ہاں تو مجھے جواب چاہیے کہ آج اس ملک میں بنیادی حقوق کسے مل رہے ہیں؟آج اس ملک کا بچہ ایک وقت کی روٹی کے لئے کیوں ترس رہاہے؟آج غریب کے بچے کو بنیادی تعلیم کیوںنہیںمل رہی؟بنیادی تعلیم کامطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی بچہ پرائمری یا مڈل تعلیم حاصل کئے بنا نہ رہے بلکہ بنیاد ی تعلیم کا مطلب ہوتاہے ایسی تعلیم جس سے کسی بھی ملک کا ہر بچہ مستفید ہوسکے اور جدید دور سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ہم اورہمارے نااہل ماہرین جسے ماہرین آپ لوگ سمجھتے ہونگے میں نہیں کیونکہ وہ صرف کتابی باتوں پر یقین رکھتے ہیں عملاً پر بھی۔آج اگر ہمارے ملک کا تعلیمی ڈھانچہ تنزلی کا شکار ہے تویقینا وہ تمام نااہل ماہرین تعلیم اس کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں جو کبھی نہیں چاہتے کہ غریب کا بچہ بھی معیاری تعلیم حاصل کرسکے۔اس لئے ہمیں ان لوگوںکو ماہرین کے عہدے دینا ہونگے جو پہلے توپاکستانی ہوں۔۔میرا مطلب پاکستان سے انہیںلگائو ۔۔مفاد پرست کا داغ ان کے دامن پر نہ ہو۔ اسی طرح ان میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہو۔۔ایسے لوگ جب تعلیم کے شعبہ میں اپنی صلاحتیں منوا ئیںگے تویقینا ملک میںیکسا ں نظام تعلیم کا نعرہ عملی جامہ پہنے گا ورنہ دوسرے الفاظ میں چار قسم کے بچے تو پہلے ہی سے تیا رہو رہے ہیں۔
ہم جہاں تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہاں یہ یکسر بھول جاتے ہیں کہ تبدیلی ہم سے ہے ہم اگر اپنے آپ کو تبدیل نہیںکریںگے تو ملک میں تبدیل کبھی نہیںآئے گی۔۔اس لئے سب سے پاکستان کا تعلیمی ڈھانچہ مثبت تبدیلی کا متقاضی ہے۔یہاں چونکہ بات جدید دورسے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی ہورہی ہے اس لئے ہماری ذمہ داریاں بھی جو بنتی ہیں انہیںبھی ملحوظ خاص رکھنا ہوگا جیسے ہمارا پڑوسی ملک چائنا ہمیں سستے نرخوںمیں جدیدآلات فراہم کررہاہے تو اس کے بعد ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بھی اپنا فرض اداکرکے ملک کو ترقی کی راہوںپر گامزن کرسکیں۔جیسے آپ اگر کوئی بھی ملک اوریجنل ٹیبلٹ ساٹھ سے ستر ہزارمیں مہیاکررہاہے تودوسری جانب اسی طرح کا ٹیبلٹ چائنا ہمیں چھ سے سات ہزارمیں ۔اب یہاں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرکے ملکی ترقی میںاپنا مثبت کردارااداکریں۔جیسا اوپر بیان ہوچکاکہ پاکستان کیسا ہونا چاہیے؟تو یقینا جناب ملکی ادارے تب ہی مستحکم ہوسکیں گے جب ہمارا تعلیمی ڈھانچہ مستحکم ہو گا۔
اس میں ماہرین تعلیم اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیںگے اور سرکاری سکولوںسے نکلنے والے بچے معاشرہ پر بوجھ بننے کی بجائے معاشرہ کی ترقی میں اپنا کرداراداکریںگے۔اگر تو ہم یہ بات کریں کہ ہمیں ان لوگوںکو اقتدارکے ایوانوں تک پہنچانا چاہیے جو اہل ہیں تو جناب یہ بھی قابل غور ہے کہ ماہرین کی عدم دستیابی ہی ہماری بدقسمتی ہے ۔ہم اگر اقتدارکے ایوانوںتک اہل لوگوںکو پہنچائیںگے تو پہلے تو ہمیں اہل لوگوںکو ڈھونڈنا ہوگا کہ اہل لوگ پاکستان میںرہتے کہاں ہیں؟کیونکہ ہمارے ڈاکٹرز ،انجینئرز،اساتذہ ،وکلاء اوردیگر شعبہ جات میں ماہر لوگوںکو ماہرین سمجھا جاتاہے یہ بھول کر کہ ان تمام شعبوں میںکام کرنے والوںکی کارکردگی کیا ہے؟ہم اس بحث میں نہیںپڑنا چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام شعبہ جات کس نہج کو پہنچ چکے ہیں بلکہ ہم وقت کو ضائع کئے بغیر ان امور پر غورفرمائیںگے جن سے ہماراپاکستا ن ترقی کی راہوںپر گامزن ہو سکے۔
آج جیسے میں اپنی زندگی اور اپنا مستقبل تابناک چاہتاہوں ایسے ہی میری سوچ میرے ملک کے بارے میںبھی ہو۔پاکستان کیسا ہونا چاہیے؟اس کے لئے ضروری بات سب سے پہلے کہ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا ۔بحث شروع کہاں سے ہوئی تھی اور پہنچ کہا ں کو گئی ۔۔آج میں اگر اپنے کو اپنے پاکستان کو کہیں دیکھنا چاہتاہوں تو اس کے لئے مجھے خود کوبدلنا ہوگا۔اسی طرح سیڑھی بنے گی۔۔اور ملک میں وہ تمام ادارے اپنی اپنی کارکردگی کو مثبت بنانا شروع کردیںگے ورنہ دوسرے الفاظ میں جیسا ہے ویسا چلنے دو۔لیکن اگر تبدیلی چاہتے ہو تو خود کو بدلو۔۔معاشرہ اور ادارے خود بدل جائیں گے۔ ۔پاکستان زندہ باد
تحریر : وقار احمد اعوان