تحریر : قراتہ العین سکندر
پاکستان میں کرکٹ پچھلے کافی عرصہ سے زبوں حالی کا شکار رہی ہے۔کبھی کرکٹ بورڈ کی من مانیاں اور کبھی کھلاڑیوں کے آپس کے اختلافات ناکامی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔سینیر کھلاڑی رمیز راجہ کا بیان ہے کہ عمران خان کے دور میں ہمیں یہ بھی معلوم نہ ہوتا تھا کہ پاکستانی کرکٹ بورڈ کا چیرمین کون ہے؟ اور سلیکشن کمیٹی میں کون کون سے ارکان شامل ہیں۔
یہ تو بات تھی ماضی بعید کی۔اور اگر حال پر غور کیا جاے تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ہر چھوٹا بڑا مسلہ آپس میں حل کرنے کی بجاے وہ مسلہ میڈیا اور چیرمین کے سامنے عیاں کر دیا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے مسلہ حل ہونے کی بجاے مزید بیان بازیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ طول پکڑ لیتا ہے۔
مزید ستم ظریفی یہ کہ ایسے حضرات کو کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کے اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔جن کو کرکٹ کی الف بے کا بھی معلوم نہیں ہوتا۔پھر یہ نام نہاد چیرمین آل ان آل کا مالک بن بیٹھتا ہے جو شخص جی حضوری کرتا رہے اس کی سلیکشن ہو جاتی ہے۔روابط سر چڑھ کر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ کرکٹ کے چیرمین کے طور پر ایسے سینیر اور تجربہ کار کھلاڑیوں رکھا جاے جن کو کرکٹ کے تمام اسرار و رموز کی بخوبی سمجھ بوجھ ہو۔ ایسے کء نام ہیں۔
عبدالقادر جاوید میانداد سکندر بخت سلیم ملک عامر سہیل مدثر نزر ایسے ان گنت نام موجود ہیں۔ جب کبھی کسی بھی شعبہ جات میں اصلا ح کی ضرورت ہو تو اسکا آغاز ہمیشہ اونچی سطح سے کرنی چاہیے نچلی سطح پر موجود تمام پوسٹس خودبخود ہی ٹھیک ہو جاتی ہیں۔
پھر ملک میں ڈومیسٹک ٹورنامینٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر اس میں ایک دو عمدہ پرفارمنس دینے والے کھلاڑی چن بھی لیے جایں تو اگر وہ بد قسمتی سے اعلی سطح پر اچھی کارکردگی نہ دکھا سکیں تو انہیں ڈراپ کردیا جاتا ہے جبکہ حقیقت حال تو یہ ہے کہ کسی بھی کامیابی کے لیے مسلسل اور انتھک محنت کی ضرورت ہوتی ہے ہر نیے دن ایک نیا چہرہ متعارف کروا کر اسے دوسرے دن پس منظر میں ڈال دیا جاتا ہے۔
پھر کوی بھی کامیابی آپ کو تھالی مین سجا کر پیش نہیں کی جاتی اس کے پیچھے محنت درکار ہوتی ہے۔چند کھلاڑی اگر انفرادی طور پر محنت کرتے بھی ہیں تو جب تک وہ اجتماعی محنت میں تبدیل نہیں ہو جاتی تب تک کامیابی ہمارا مقدر نہیں بن سکتی اور یہ اجتمای محنت آتی ہے بھای چارے سے یگانگت سے اگر سب مل کر اتنا ہی سوچ لیں کہ سب نے یک جان ہو کر محض پاکستان کی فتح اور سر خروی کے لیے کھیلنا ہے باہم مل کر کھیلنا ہے تو کوی شے کامیابی سے نہیں روک سکتی مگر یہاں تو جگہ جگہ گروپ بندی کا سسٹم چالو ہے۔ حدیث پاک ہے۔ ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔
پس ہمارے بعض کھلاڑی محض روپوں کے لیے ہی کھیلتے ہیں اور باقی کوی بھی جزبہ کارفرما نہیں ہوتا اسی مال کے چکر میں اپنی عزت وقار غیرت حمیت سب کچھ قربان کردینے سے دریغ نہیں کرتے۔مگر چند نام ایسے بھی ہیں جو فقط جب بھی بلا اٹھاتے ہیں مقصد صرف پاکستان کی فتح ہوتی ہے جیسے شاہد خان آفریدی جن کی محنت شاکہ کی بدولت ہم کء ہارے ہوے میچ بھی جیتتے رہے۔کاش سب کھلاڑی اپنے آپسی اختلافات بھلا کر محض پاکستان کی سرخروی اور فتح کے لیے کھیلیں تو ان شائ اللہ فتح مقدر ٹھرے گی۔آمین
تحریر : قراتہ العین سکندر