تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری
6 ستمبر 1965 کا دن بھارتیوں کے خبث ِ باطنی اور پاکستانیوں کے ولولوں ،حب الوطنی کے جذبوں اور شہادتوں کا یا د گار دن ہے۔اس دن بھارتی افواج نے 1947 میں کشمیر کے محاذ پر شکست کا بدلہ لینے کے لیے رات کے پچھلے پہر سندھی بے آب و گیاہ ریگستانی علاقے کھیم کرن کے سیکٹر پر حملہ کرڈالا۔ہندو سامراجی بنیوں کا خیال تھا کہ یہ سارا جنگل بیابان ہے اور ہم اندر دور تک قابض ہو سکیں گے۔بھارتی ناکام و نامراد رہے اور پاکستانی مجاہد فوجیوں نے انھیں پرے دھکیل ڈالا۔انہوں نے صبح نماز فجر سے قبل ہی لاہور کے واہگہ بارڈر اور برکی روڈ سے ٹینکوںکے ساتھ حملہ کرڈالا یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ بنیوںکے جنرل چوہدری کے غرور کا یہ عالم تھا کہ اس نے شالیمار میں پہنچ کر ناشتہ اور جمخانہ کلب میں چائے پینے کے وقت کا بھی اعلان کرڈالا یہاں بھی بھارتی افواج کو سخت حزیمت اٹھانی پڑی اور ان رو سیاہوں کا لاہور کے اندر گھسنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔بی آر بی نہر کا پل حالات کی سنگینی کے پیش نظر پاکستانی افواج نے بارود سے اڑا ڈالا اور دشمن کے تین ٹینک تباہ کرڈالے۔دشمن سخت دلبرداشتہ ہو کر پیچھے پلٹا اور اس کی پوری ٹینک رجمنٹ کو پاکستانی شیر دلیر فوجیوںنے 15 منٹ کے اندر ہی ریت کا ڈھیر بناڈالا ۔بھارتی بزدلانہ جارحیت ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئی تو افواج پاکستان نے دفاع کو مضبوط کر لیا۔
یہ 6 ستمبر کا ہی وہ دن ہے جب ائیر فورس کے مایہ ناز سپوت ایم ایم عالم نے دو منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ لڑا کا طیارے مار گرائے اور عالمی ریکارڈ قائم کرڈالا۔برکی کے محاذ پر میجرعزیز بھٹی شہید نے جام شہادت نوش فرمایا اور بی آر بی نہر پرمیجر شفقت بلوچ ستارہ جرآت اور ان کی ٹیم نے بھارتیوں کا مقابلہ کیا اور انھیں دندان شکن جواب دیا۔سب سے خطرناک حملہ 600 ٹینکوں کے ذریعے سیالکوٹ میں چونڈاکے محاذ پر بھارتی بزدل افواج نے کیا مگرجسموں سے بارودباندھ کر پاکستانی جیالے فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور یہ محاذ بھی بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا۔ یہ جنگ 17 روز تک جاری رہی ریڈیو پاکستان نے قوم کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے ان کے دلوں کو گرمائے رکھا جب کہ حب الوطنی کے جذبوںسے سرشار شعراء نے اپنے خون جگر سے جنگی ملی ترانے لکھے جس پر اسلام کے شیدائی پروانوں سازندوں اورگلوکاروں نے سروں کا وہ رنگ جمایا کہ دشمن کے حوصلے پست ہوتے چلے گئے۔ملکہ ترنم نور جہاں اس وقت بھی ریڈیو اسٹیشن خود تشریف لے جاتی رہیں جب ہوائی حملوں کے سائرن بج رہے ہوتے تھے غرضیکہ ان کے ساتھ مسعود رانا ،فریدہ خانم ،خورشید بیگم ،اقبال بانو نے بھی اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اپنا فرض نبھایا ایسے ایسے قومی نغمے گائے کہ پورا ملک افواج پاکستان کی پشت پر کھڑا ہو گیا۔”میرے وطن کے سجیلے جوانو ۔میرے نغمے تمہارے لیے ہیں”میریا ڈھول سپاہیاتینوں رب دیاں رکھاں”جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی “جیسے نغمات ملک میں گونجتے رہے۔
جہاں سے فوجی قافلے گذرتے خواتین ٹرکوں کے اندر اپنے طلائی زیورات تک اتار کر پھینک ڈالتی ۔سارے راستوں پر سینکڑوں کھانے کی پکی ہوئی دیگیں رکھی رہتیں ۔صدر مملکت ایوب خان نے بھی اپنی تاریخی دل پذیر تقریر میں بھارتیوں کو للکارا اور کہا کہ “دشمن پر لااللہ الا اللہکہتے اور اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے ٹوٹ پڑو اور اسے بتادو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے “اس تقریر نے تو مسلمانان پاکستان کے دلوں میں چنگاریاں بھر دیں یہاں تک کے جب بھارتی طیارے لاہور پر حملہ آور ہوتے تو لاہوری فرط جذبات میں اپنی حفاظتی خندقوں سے لاٹھیاں لے کر نکل پڑتے سارا لاہور شاہراہوں پر ہوتا۔
ہندو بنیوں کے جہاز یا تو ہمارے فضائی سورمائوں کے حملوں سے جہنم واصل ہو جاتے یا واپس بھاگ نکلتے ۔بزدل بھارتی افواج فضائی اور زمینی جنگ میں شکست سے دو چار ہوگئیں اور اقوام متحدہ کے آگے جاکر گھٹنے ٹیک ڈالے اور ان سے جنگ بندی کی قرارداد فوری منظور کیے جانے کے لیے منت سماجت کرنے لگے بالکل ایسے ہی 1947 میں کشمیری محاذ پر بھارتی وزیر اعظم نہرو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیریوں کو اپنا فیصلہ خود کرنے کی تجویز دے کریعنی انھیں حق خود ارادیت دینے کا اعلان کرکے جنگ بندی کروالی تھی اور کہا تھا کہ ہم جلد ہی ریفرینڈم کروائیں گے اور کشمیری جو بھی فیصلہ کریں ہمیں قبول ہو گا۔مگر مکار بنیا کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور ہی ہے ۔حالانکہ اس وقت پاکستان مقبوضہ کشمیر کے1/3 سے زائدحصہ پر قابض ہو چکا تھا ۔الکفر ملتاًواحدةً کی طرح پورے عالم کفر کی نمائندہ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرواڈالی تھی۔پاکستانی افواج نے آج تک کوئی جنگ نہیں ہاری۔سوائے 1971 کے جس میں میر جعفروں و میر صادقوں نے مشرقی پاکستان کو ہم سے علیحدہ کروایا تھا۔یحیٰی خان کی مسلسل دو دن تک لاڑکانہ میں جا کر ملاقاتیں رنگ لائی تھیں ۔بھٹو صاحب براہ راست اقوام متحدہ میں پاکستانی نمائندہ نامزد ہو کر گئے اور طے شدہ پالیسی کے مطابق پو لینڈ و دیگر ممالک کی جنگ بندی کی قرارداد کو پھاڑ کر واک آئوٹ کر گئے۔تیسرے ہی دن یحییٰ خان نے وعدہ معاہدہ کے عین مطابق مشرقی پاکستانی کمانڈر جنرل اے اے نیازی کو فوراً ہتھیار ڈالنے کا حکم بھیج ڈالاجس پر 93ہزار مسلم سپاہ اروڑا سنگھ کے آگے ہتھیار ڈال کر قیدی ہو کر بھارت لے جائی گئی۔
عالم اسلام خون کے آنسو روتا رہااور اُدھر تم اِدھر ہم کی تجویز کو پذیرائی مل گئی اور قوم کے سراس وقت شرم اور ندامت سے جھک گئے جب اٹھائیس ہزارمسلم نوجوان بچیوں کو بھی بھارتی فوجی زبردستی ساتھ لے گئے۔آج تک بھی بنگلہ دیشی بھارتی وزیرا عظم ڈریکولا حسینہ نے بھارتیوں کی شہ پر ان محب وطن افراد کو پھانسیوں پر لٹکانے کا سلسلہ جاری رکھا ہو ا ہے جو اس وقت پاکستانی افواج کے امدادی تھے آج کا چھ ستمبر ہمیں مشرقی پاکستان میں اور مغربی پاکستان کے محاذ پر شہید فوجیوںکی یادیں دلاتا ہے جنہوں نے اپنی جانیں جان آفریں کے سپرد کیں ۔اور پاکستان کے دفاع میں شہادتیں پائیں آج بھی افواج پاکستان ہمہ قسم دہشت گردوں، بھارتی راکے ا یجنٹوں، لسانی ومذہبی فرقہ واریت کازہر پھیلانے والوں کے خلاف ضرب عضب کے تحت برسر پیکار ہیں انشاء اللہ مکمل کامیابی ہو گی کہ شہیدوں کے خاندان کے سپوت جنرل راحیل شریف پر قوم کو مکمل اعتماد ہے۔
انہی دنوں بھارت نے دیگر کافرانہ سامراجی ممالک اسرائیل و امریکہ سے فوجی معاہدہ کیا ہے جس کی پر کاہ کے برابر بھی حیثیت نہ ہے کہ ہمیشہ ہی کفر و باطل ایک دوسرے کے ساتھی رہے ہیں یہ لاکھ کو ششیں کرلیویں پاکستان کابال بھی بیکا نہیں کرسکتے ہم وہ ایٹمی قوت ہیں جو ساڑھے چار منٹ میں بھارت کے تمام شہروں کونیست و نابود کرسکتے ہیں اور پھر جنرل ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی تو بھارتیوں کو خوب یاد ہو گی کہ جنرل صاحب نے کرکٹ کے میچ کے اندر بھارت پہنچ کر حکمرانوں کو واضح پیغام دیا تھا کہ اپنی فوجیں اگر میری پاکستان واپسی تک آپ نے ہمارے بارڈروں سے نہ ہٹائیں تو میں واپس جاتے ہی آپ کی مکمل تباہی کا موجب بن جائوں گا۔دنیا میں ہندو سٹیٹ صرف آپ اکیلے ہیں آپ ختم ہوگئے تو ہندو ازم کا نام لیوا پوری دنیا میں کوئی نہیں رہے گا مگر پاکستان کے علاوہ مزید اٹھاون اسلامی ریاستیں دنیا پر موجود ہیں اس پر بزدل بنیوں نے اپنی افواج فوراً ہٹالیں۔اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ ہم ہی فتح مند ہو ںگے مودی سرکار گیدڑ بھبکیاں بند کرے کہ قوم متحد ہے اور بقول کمانڈر ہم آخری حد تک جائیں گے۔او ر اس وقت شریفانہ دوستی بھی آپ کے کچھ کام نہ آسکے گی۔
تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری