تحریر: اختر سردار چودھری ۔ کسووال
کوئٹہ بلوچستان کا دارالحکومت ہے۔ بلوچستان دوسرے صوبوں کی طرح ادبی حوالوں سے کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ کوئٹہ سنٹر کے پروگرام دوسرے صوبوں کی طرح بے حد پسند کئے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کچھ شہر بلکہ ملک کا ہر صوبہ نعمت خداوندی کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے اپنی الگ پہچان ضرور رکھتا ہے۔ کوئٹہ سے شائع ہونے والاادبی مجلہ “حرف “چار سو صفحات سے زائد پر مشتمل ہے ٹائٹل پرتصویر امن کا پیغام دیتے ہوئے ملکی تعمیر و ترقی کیلئے دعائیں کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔”حرف “کا ٹائٹل اتنا سادہ اور خوبصورت ہے کہ بیان سے باہر ہے۔
مدیر سید نوید حیدر ہاشمی ،سرپرست میر شاہنواز مری( صوبائی وزیر کھیل و ثقافت حکومت بلوچستان) اور محترمہ راحیلہ درانی (ایم پی اے)محترمہ یاسمین لہڑی (ایم پی اے )،نگران جناب منیر احمد بادینی چیئر مین کوئٹہ رائٹرز فورم(رجسٹرڈ) کوئٹہ پاکستان اس کے ساتھ ساتھ مجلس مشاورت کے تمام اراکین نے اس ادبی دستاویز میں جو رنگ پیش کئے ہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ بلوچستان کے ادبی افق سے طلوع ہونے والی اس ادبی دستاویز نے ملکی سطح پر تہلکہ مچا دیا ہے ناصرف ملکی سطح پر بلکہ بیرون ملک “حرف” کے 17 نمائندگان نے بھی یہ ثابت کر دکھایا ہے وہ میرے ملک پاکستان سے نکلنے والے “حرف “کی کس حد تک پذیرائی میں شامل ہیں۔ آئیں اس ادبی جریدہ پر ایک سرسری نظر ڈالیں۔
حرف آغاز” مدیر کے قلم سے شعرا ،ادبا ء اور دانشوروں کی موجودہ صورت حال دہشت گردی ،غربت ،قوم کی سسکیاں ،افرا تفری وغیرہ پر ہمارا حساس طبقہ زیادہ تر خاموش ہی نظر آیا جس پر مدیر نے اداریہ میں ان دانشوروں کو اپنی ذمہ داریوں کا حساس دلایا ،وہ لکھتے ہیں کہ ۔خود کو حساس طبقے کا فرد گرداننے والے اپنے حق حساسیت سے دستبردار اور لاتعلق نظر آئے ،وہ مزید لکھتے ہیں کہ اگر وہی اپنے ہاتھوں میں “مصلحتوں ” کی چوڑیاں اور پائوں میں” بے حسی” کی پازیبیں پہن لیں تو پھر معاشرتی تبدیلی کا نعرہ ہمیں میدانوں اور صحرائوں کی بجائے ہیجڑوں کے آنگن میں ٹھمکے لگاتا ہوا نظر آئے گا ،جناب مدیر دانشوروں ،ادباء ،شعراء سے عہد لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئیے عہد کریں کہ اس ملک کی تقدیر ہم نے ہی بدلنی ہے اب ہمیں اس “جہاد بالقلم” میں ” حروف” کی ذرہ پہن کر شریک ہونا ہے ۔
“حرف عجز”، میں دو حمد ہیں حجاب عباسی ،اور ریاض ندیم نیازی کی ایک حمد کا ایک شعر دیکھیں ۔
کس طرح شکر کا حق مجھ سے ادا ہو اس کا
۔اپنی خلقت کو جو احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سا پیمبر بخشے
چھ عدد نعتیں ہیں اور اتنے ہی سلام ایک نعت کا ایک شعر دیکھیں ۔ سبھی رفعتیں اس کے سامنے سر نگوں تری عظمتوں کا ہے آسمان مری سوچ میں “حرف دانش “میں 10 تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں ۔جو کہ خاصے کی چیز ہیں ۔”نکتہ ہائے آموختہ “جناپ پرویز ساحر نے ترتیب د ہماری طرف سے ان کومبارک باد ۔زاہد فخری ایک سفر نصیب شاعر پر خوبصورت تبصرہ حرف دانش میں جناب ڈاکٹر جواز جعفری کا پڑھنے کوملا۔
دکھ یہی فخری مری ہجرت کے لا حاصل میں ہے
ایک بھی چہرہ یہاں سچا نہیں لگتا مجھے
حاسدوں کی بستی ہے نفرتوں کا جنگل ہے
پیار کا پکھیرو اب کس کے پیڑ پر بیٹھے
“حرف ورود “میں 26شعراء کی 46 غزلیں ، دوسری جگہ 40 شعرا کی 82 غزلیں ہیں ،اور تیسری جگہ 33 شعراء کی 46 غزلیں شامل ہیں ۔ ویسے اتنی غزلیں شائع نہیں کرنی چاہیے “،حرف” صرف شاعری کے لیے تو مخصوص نہیں ہے ناں ۔ کئی ایک غزلیں چونکا دینے والی ہیں ۔”حرف خیال”، افسانوں کے لیے مخصوص ہے جس میں 16 افسانے شامل ہیں ۔ میرے خیال میں اچھا شعر ،افسانہ ،کہانی،وہ ہوتی ہے جس کو پڑھتے ہوئے لگے کہ یہ تو میرا خیال ہے ،میری کہانی ہے ،کامیاب ادیب ،شاعر،افسانہ نگار کا یہ ہی کمال ہوتا ہے ،وہ دوسروں کے دلی جذبات کو بیان کرتا ہے ،حرف میں شامل بہت سی غزلیں اور افسانے پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے ۔ستیہ پال آنند پروفیسر ،ڈاکٹر کی مختصر نظم “میں زاویہ قائمہ نہیں ہوں” کا ساخیاتی و فکری جائزہ سید تحسین گیلانی نے چھ صفحات پیش کیا
جس نے اس عام سی نظم کو خاص بنا دیا ۔”حرف خاص /خصوصی گوشے “،شاعری اور افسانوں کے لیے ہے جس میں صرف تین مضامین شائع ہوئے ہیں ۔”حرف ناآشنا”،جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس میں تراجم شائع کیے جاتے ہیں جو کہ اس شمارہ میں 8 تراجم ہیں ۔یہ بہت اچھی کاوش ہے اس سے قاری عالمی ادب،اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے ادب سے واقف ہوتا ہے ۔ان کی تعداد 10 کر دی جانی چاہیے ۔حرف نزول، میں کل 30 نظمیں ہیں ایک سے بڑھ کر ایک نظم پڑھنے کو ملی ،۔ اس بعد اندرونی ٹائٹل کا نام ہے” حرف شگفتہ /طنزو مزاح “کے نام سے مخصوص ہے اس گوشے میں ڈاکٹر سعید اقبال سعدی کا مضمون,نظمیں ،غزلیں شامل ہیں ۔جسے پڑھتے ہوئے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سج جاتی ہے دور سے دیکھنے والا آپ کی ذہنی صحت پر شک بھی کر سکتا ہے۔ حرف معلوم”میں تقاریب و رپورٹس میں 11 سیمینارز، مشاعروں، ادبی کانفرنسوں، اعزازی تقریبات، کتاب کی رونمائی، وغیرہ کے عنوان سے شائع کیے گے ہیں۔
آخر میں “حرف پیام” کے عنوان سے قارئین کے 15 خطوط شائع کیے گئے ہیں ۔یہ بھی خیال رہے کہ حرف میں شامل بہت سے لکھاریوں سے میں دو بدو نہیں ملا ۔لیکن بہت سے جریدوں ،رسائل،میں ان کے لکھا پڑھا ہے ، کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اگر یہ پالیسی بنا ئی جائے کہ ایک ادیب صرف ایک موضوع پر حرف کے لیے لکھے ،طبع آزمائی کرے ،حرف میں یہ مجھے خامی محسوس ہوئی ہے کہ ایک ہی ادیب نے ہر موضوع پر لکھا ہے ،سب ہی ہر فن مولا ہیں،میری درخواست پر اگر مدیر توجہ دیں تو اس سے حرف کا تعلق مزید لکھاریوں سے مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ لکھاریوں میں ایک مقابلے کی فضا بن جائے گی جس کا حرف کے معیار پر اثر پڑے گا ،سلیکشن کے لیے ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو کہ سفارش کی بجائے معیار کو ترجیح دے ، اور حرف کا عوامی ایڈیشن ہونا چاہیے ، کیونکہ موجودہ مجلہ مہنگا بہت ہے ،عام قاری کے لیے اسے خریدنا مشکل ہے ۔
تحریر : اختر سردار چودھری