تحریر: محمد سلیم صادق
برصغیر میں مسلمانوں کا 1000 سالہ دور حکومت جب اپنوں کی عیاشی اور غفلت کی وجہ سے زوال پذیر ہوا تو برطانوی سامراج کا عروج تھا۔ اس دور میں مسلمانوں کا جو قتل عام کیا گیا اس کی نظیر پوری برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مسلمانوں نے ہندووں کی تنگ نظری ‘منافقانہ رویہ اور انگریز کا ظلم دیکھ کر غلامی کی زنجیروں سے خود کو آزاد کرانے کا پختہ عزم کر لیا تھا آزادی کی ایک طویل جدوجہد کے بعد آخر کار14گست1947کومسلمانوں نے نظریہ پاکستان (لاالہ الا اللہ محمدالرسول اللہ )کی بنیاد پر ایک ریاست قائم کی جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔اس کا بنیادی مقصد مذہبی آزادی اور دو قومی نظریہ تھا’کیونکہ بت پرستی اور توحید خالص ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔مگر افسوس کہ 68 سال گزر جانے کہ بعد آج بھی مسلمان باہمی اختلافات،علاقائی تعصبات اور لسانی تفریق کا شکار ہیں ۔ ان چیزوںنے معاشرے کی فضا خراب کر رکھی ہے۔ اسی پربس نہیں بلکہ شروع دن سے ہی ملک پاکستان کو دشمنوں نے اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ہجرت کرتے وقت قتل وغارت ہو یا تقسیم بنگال ہو ‘ڈرون حملے ہوں یا خود کش دھماکے ‘سری لنکن ٹیم پرحملہ ہویاکراچی جیسے بڑے شہر کے امن کو خاک وخون سے نہلا دیا گیا ہو’اغوا برائے تاوان ہو یا واہگہ بارڈر پر خون کی ندیاں بہا دی گئی ہوں’بھارت کی آبی جارحیت ہو یا بلا اشتعال فائرنگ سے ہمارے جوان فوجیوں کی زندگی کے چراغوں کو بجھا دیا گیا ہو’پشاور سکول میں معصوم بچوں پر فائرنگ کر کے ہماری غیرت کو للکارا گیا ہویاریمنڈڈیوس جیسے قاتل کے ہاتھوں3بے گنا ہ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ہو’ان سب سے دشمن کی عیاری اورمکاری کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔
بقول شاعر! میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں’ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے مگرافسوس !صد افسوس نام نہاد مسلمان حکمران اورخود کو بڑے دانش مند کہلوانے والے تجزیہ نگاراور الیکٹرونک پرنٹ میڈیا پر تبصرے کرنے والوںکو نہ جانے دینی مدارس ہی کیوں نظر آتے ہیں ؟دینی طلبا اور علماء کا طبقہ ہی کیوں نظر آتا ہے کہ ان پر ظلم وتشدد کا سارا ملبہ ڈال دیا جائے اور بغیر تحقیق کے علماء کو اٹھا کر جیلو ں میں بند کر دیا جائے’کیا یہی طبقہ دہشت گرد ہے؟ان دانش مندوں سے اگر پوچھا جائے کیا تمہیں شراب نوشی کے اڈے نظر نہیں آتے؟کیا تمہیں وہ قحبہ خانے نظر نہیں آتے ؟ جہاں دن رات بے حیائی وبے غیرتی اور جسم فروشی کی تجارت اپنے عروج پر ہے۔کیا تمہیں وہ غیر ملکی این جی اوز نظر نہیں آتیں جو حقوق نسواں اور رفاعی کاموں کے نام پرفحاشی و بے حیائی کو فروغ دے رہی ہیں اور ملکی امن کو شیعہ سنی فساد کھڑا کر کے خانہ جنگی میں تبدیل کیے ہوئے ہیں۔ تمہیں مخلوط تعلیم کے نام پر فحاشی و عریانی کے سلسلے اور سیاستدانوں کی غیر قانونی سرگرمیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟ کتنی ہی بوری بند لاشیں ملتی ہیں جن کو قتل کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا یا گیا ہوتا ہے مگر قاتلوں کا سراغ آج تک نہیں لگایا جاسکا۔ سانحہ ماڈل ٹا وَن میں کتنے لوگوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیا گیا’اسلام آباد میں دھرنوں نے جو بد امنی اور بے حیائی کی تاریخ رقم کی ہے اس سے ہماری نظریں کیوں بند ہیں؟۔ملکی غداری کی جو تاریخ مشرف دور میں رقم ہوئی اس کی نظیر کون پیش کر سکتا ہے؟انتخابات کے موقع پر مخالف پارٹیوں سے لڑائی جھگڑوں’ ہوائی فائرنگ نا جانے کیا کیا طوفان بدتمیزی کھڑا کیا جاتا ہے۔ویلنٹائن ڈے 14 فروری کو جو حیاسوز واقعات حتی کہ الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا پرجو بے حیائی کوفروغ دیا جاتا ہے۔
بسنت کے موقع پر کتنے لوگوں کی جانو ں سے کھیلا جاتا ہے و ہ کسی دانشمندکو نظرنہیں آتا۔کیا پاکستان اس لیے حاصل کیا گیاتھا؟ کیا یہ نظریہ پاکستان تھا؟آئین پاکستان میں تو لکھا ہے کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بننے دیا جائے گا۔کیا یہ صرف لکھنے کی حد تک تھا؟۔ذاتی مفاد ہو تو ہفتوں اسلام آبادکو سر پہ اٹھائے رکھنا اپنا حق سمجھتے ہیں ۔نہ جانے نبی اکرم کے خاکوں کی بات ہو تو کیوں خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں؟آخر یہ سب کچھ کیوں ہے؟اس کا جواب ہر ذی شعور جانتا ہے!کیا یہ سب کچھ انسانی سمگلنگ وغیرہ مدارس کے لوگ کرتے ہیں؟تو اس کا جواب یقینا نفی میں ہو گا۔جس ملک میں جرائم پیشہ افراد سر عام اسلحہ لہراتے ہوئے گھومتے ہوں قانون ان کی نظر میں ہیچ ہو تو وہا ںمستقبل میں کئی لرزہ خیزواقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی مدرسہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہو تو اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے لیکن تمام دینی مدارس کو نشانہ بنانا شرمناک ہے۔
مدارس پر بے بنیاد الزام لگانے والے سیکولرذہن رکھنے کے ساتھ ہمیشہ امریکہ’ بھارت کی زبان بولتے ہیں۔ان کی اپنی حالت تو یہ ہے کہ شاید ہی کسی کو دین سے واقفیت ہو۔ مگر خود کو دین کے ٹھیکیدار سمجھتے ہوئے دینی مدارس پرتبصرہ کرتے اکثربے لگام ہو جاتے ہیں۔ دینی مدارس اور علماء جوتمہیں اچھے اور برے ‘حرام اورحلال کی تمیز سکھاتے ہیں۔ان کا ایمان ہے کہ جنگ کے دوران عورتوں بچوں بوڑھوں جانوروں حتی کہ فصلوں تک کو نقصان پہنچانا بھی درست نہیں ہے۔ جو بچوں ‘عورتوں اور بے گناہوں کو مارنا جہاد اور دین سمجھے یقیناوہ جھوٹا ہے اور ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے۔ دینی مدارس میں اس بات کی تعلیم دی جاتی ہے کہ میدان جنگ میں بھی دشمن کی لاش کا مثلہ نہ کیا جائے۔کسی کو قتل کرناقصاص کو لازم کرتا ہے۔ کسی کا ایک دانت توڑنے و الے پرقصاص اور زخم کا بدلہ لیا جائے گا’چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا’فساد فی الارض کرنے والے کو قتل کیا جائے گا’زانی کو کوڑے مارے جائیں گے شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا اوریہ کام حکومت وقت کا ہے نہ کے جس کا جی چاہے قانون کو ہاتھ میں لے کر فیصلے کرتا پھرے۔ اسلام قطعاً اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ دین کا صحیح علم رکھنے والے وہ علماء جو انبیاء کے وارث ہیںوہ لوگوں کے قتل عام کی تعلیم نہیں دے سکتے۔کفر کے فتوے لگانے والے اور ہیں اور دشمن کے ہاتھوں میںکھیل رہے ہیں۔
اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ حکومت ‘ملک اور دین کو بدنام اور قتل و غارت ‘فساد فی الارض کو جہاد کا نام دے کر دھوکا دیتا ہے اور ہم سب کا مشتر کہ دشمن ہے۔وہ چاہے کسی مدرسے میں چھپ کربیٹھا ہو یا حکومتی عہدو ں پہ براجما ن ہو ۔وہ چاہے کسی دینی جماعت کا لیڈر ہو یا کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ ہو ہماری سب کی اس کے خلاف جنگ ہے۔ اس ملک پاکستان کو ہم سب مل کرایسے لوگوں سے پاک کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان شاء اللہ۔مگر ہمیں اپنے حقیقی دشمن کو پہچاننا ہو گا ‘ورنہ یہ خانہ جنگی اپنے ہی لو گو ں پر بغیر ثبوت کے مقدمات چلائے جانا یہ اک دوسری بدامنی کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔اگر حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان میں بدامنی کا خاتمہ ہو’دہشت گردی کی جڑیں کاٹی جائیں ”امن کا پرچار ہو’لوگوں کے جان ومال کا تحفظ ہو تو چند تجاویزپرعمل کریں میں پورے ایمان سے کہتا ہو ں بہت جلد دہشت گردی اپنی موت آپ مر جائے گی۔ ان شاء اللہ۔ملکی بد امنی کا حل یہ ہے کہ عدل و شرعی حدود و تعزیرات کا فوری نفاذ کیاجائے۔جرائم پیشہ ا فراد کو تحقیقات کے بعد جرم ثابت ہونے پربغیر سفارش کے چوراہوں میں سرعام لٹکایا جائے۔
حضور نبی کریم نے فرمایاتھا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔سرحدی حفاظت کیلئے سیکیورٹی انتظا مات کو یقینی بنانا دشمن کی نقل و حر کت پہ کڑی نگاہ ر کھنا اور ہر قسم کی سمگلنگ کو فوری بند کیا جائے۔غیر ملکی این جی ا وز کے اکائونٹس بند کیے جائیں ۔پاکستان میں موجود غیر ملکی شہریوں کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور ان کے ویزوں ‘شناختی کارڈ کی چیکنگ اور ان کی نقل و حرکت کی کڑی نگرانی کی جائے۔نصاف پر مبنی تمام جرائم پیشہ افراد کی مکمل تحقیقا ت کے بعد فوری طور پر سزا کویقینی بنایا جائے۔عدل میں رکاوٹ صدارتی استثناء کو فوری ختم کیا جائے’ ہر چھوٹے ‘بڑے کو بقدر جرم فوری سزا دی جائے۔بیرونی امداد سے چلنے والی۔این۔جی۔اوز جو فحاشی پھیلانے اور شعائر اسلام کی تضحیک کے مرتکب ہو ں ان کو اور ان کے اثاثوںکو فوری منجمدکیا جائے۔ملکی غداروں کو فوری تختہ دار پرلٹکایا جائے۔حکومتی شعبوں میں میرٹ پر انصاف پسند آفیسر وں کی بھرتی کو فوری عمل میں لایا جائے۔اسلامی تعلیمات سے واقف ججز کا فوری تقرر کیا جائے تا کہ نظریہ پاکستان وآئین پاکستان کی اسلامی شقوں پرصحیح معنوں پہ عمل کیا جاسکے۔اقلیتوں کو اسلامی طریقہ پر مکمل تحفظ و مذہبی آزادی دی جائے’مخلوط تعلیم کا سلسلہ فوری بند کر کے لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے الگ کیمپس و ٹرانسپورٹ جاری کی جائیں۔ملک میں بدمعاشی ‘غنڈہ گردی ‘چوری ‘ڈاکہ زنی ‘منشیات ‘انسانی سمگلنگ’اغوا برائے تاوان’جسم فروشی ‘شراب نوشی’اسلحہ کی نمائش پر پابندی اور تمام جرائم پیشہ افراد اور ان کے پشت پناہوں کو فوری مکمل تحقیقات کے بعد بقدر جرم سزا دی جائے۔تمام تعلیمی ادارو ں میں اسلامی نصاب کا فوری اجرا ء کیا جائے۔نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤں گے اے جہاں والوں تمہاری داستاں نہ رہے گی داستانوں میں۔
تحریر: محمد سلیم صادق