تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل
یہ ہو کیا رہا ہے تماشا تیرے دیس میں ہیںسب یہ جانتے مگر کوئی مانتا نہیں موجودہ پاکستان میں بہت سے فلاسفر موجود ہیں۔آپ کو جگہ جگہ فلاسفر ملیں گے۔سب کا اپنا اپنا فلسفہ ہوگا۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے زیادہ فلاسفروں کی وجہ سے ایسے حالات میں مبتلاء ہے۔یہ فلاسفر کوئی آج سے تو نہیں کافی عرصے سے چلے آرہے ہیں۔کچھ ان فلاسفروں کو جگت باز جیسا عظیم نام دیتے ہیں۔اور ایسے فلاسفروں( جگت بازوں) میں شامل ہمارے سیاستدان بھی ہیں۔کچھ فلاسفر ملکی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں اور کچھ مخالفت کی پالیسیاں۔جگت بازی ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے۔ہم میدان کے کھلاڑی نہیں رہے۔ہم بس باتوں کے تیر چلاتے ہیں۔کھیل کھیلنے کی صلاحیت اب ہمارے اندر موجود نہیں۔ہم ادھر اپنی جگتوں میں مصروف ہوتے ہیں اور ادھر لوگ ہمارے خلاف چالیں چل رہے ہوتے ہیں۔
ہمیں تو اپنے دوست و دشمن کی پہچان نہیں رہی۔ان سب فلاسفروں کے علاوہ بھی کچھ لوگ موجود ہیں جو ذرا ایسی جگتوںمیں کمزور ہیں۔ایسے کچھ نارمل لوگوں کے دل و دماغ میں گزشتہ چند دنوں سے یہ سوال لگاتر گردش میں ہے کہ ۔یہ ہو کیا رہا ہے؟جی یہ سوال پہلے بھی موجود تھا مگر اب کے بار تو ہر سیکنڈ کے ساتھ دھڑک رہا ہے۔ہم اپنے بندر تماشوں میں مصروف ہمیشہ کی طرح اور مخالفین ہمیں معاشی و سیاسی تور پر پسماندہ کرنے میں مصروف اور ہم ہیں کے جانتے ہی نہیں۔
یہ ہو کیا رہا ہے کہ امریکہ جس کی خاطر ہم نے سویت یونین اور دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی اور لڑ رہے ہیں اسی نے ہمیں دھوکا دیا۔ہاں دیا اور متعدد بار دیا مگر ہم ہیں کہ جانتے ہی نہیں۔افغانستان جنہیں چلنا ہم نے سکھایا جن کا ساتھ ہر مشکل وقت میں ہم نے دیا جن کے لاکھوں مہاجرین کو ہم نے پناہ دی وہ بھی ہمیں دھوکا دے رہا ہے اور متعدد بار دے چکا ہے مگر ہم ہیں کے جانتے ہی نہیں۔ایران جسے ہم نے کئی ہتھیار اور دوسری دفاعی امداد فراہم کی اور متعدد بار سعودی عرب اور ایران کی لڑائی میں ثالثی کا کردار ادا کیا مگر وہ ہیں کہ ہمیں دھوکا دے رہے ہیں اور ہم جانتے ہی نہیں۔اس کی وجہ میں ان غدار ملکوں سے زیادہ اپنے وطن کو ٹھہراتا ہوں۔کیونکہ اپنے اچھے اور برے کی تمیز ہمیں خود ہونی چاہیے۔
میں صدقے جائوں ان تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کے جو اب کہہ رہے ہیں کہ یہ سب خارجہ پالیسی کی بنا پر ہے اب ہمیں اپنی خارجہ پالیسی از سر نو تشکیل دینی ہو گی۔بھائی ایسا کوئی پہلی بار ہو رہا ہے یا اس صورتحال سے پہلے واقف نہیں تھے۔اب جو مفاد انہوں نے لینے تھے لے چکے اب تو تمہارے خلاف سر عام چالیں چلیں گے۔کاش کے یہ خارجہ پالیسی پہلے تشکیل دی ہوتی ملک پاکستان کو بھی خارجہ پالیسی سے کوئی فائدہ پہنچتا۔قارئین غور کریں یہ کیا ہو رہا ہے کہ غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ مسلم ریاستیں بھی آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ وہی امریکہ و بھارت جو اسرائیلیوں کے حامی ہیں۔ افسوس کے ایران و افغانستان ان کے ساتھ مل کر ہمارے وطن کے خلاف سازشیں بننے میں مصروف ہے۔
یہ انہی اسرائیلیوں کے پشت پناہ اورو دوست ہیں جو مسلمانوں کو سر عام بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔افسوس یہ ہو کیا رہا ہے کہ کوئی بھی تنظیم یا شخص مسلمانوں کا نام لے کر قتل و غارت کرے تو پوری دنیا میں سوگ ۔مگر یہودی و عیسائی پوری دنیا میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں چلا رہے ہیں کہ مسلمان ریاستوں سمیت پوری دنیا کو جیسے خبر ہی نہیں۔آخر یہ دہرے معیار اور دوغلی پالیسیوں میں کیسے کامیاب ہیں۔؟ کیونکہ ہمارے اندر ضمیر ہی نہیں کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں مگر مسلمانوں والی کوئی بات نہیں جو ہمارے اندر موجود ہو۔ہو یہ رہا ہے کہ ہم اپنا اور اپنے وطن کا سودا بار بار کرتے ہیں اور گھاٹے میں کرتے ہیں۔
ہماری حیثیت بھکاریوں جیسی ہے روپے کے عوض ہم اپنی آزادی دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔جو ہم نے بیرون ممالک سے قرض لئے اس قرض سے پاکستان میں کیا تبدیلی آئی ؟سوائے اپنی خودمختاری کو ختم کرنے کے۔یہ کیا ہو رہا ہے کہ امریکہ نے ہمیں ایف سولہ طیارے فراہم کرنے تھے مگر صاف انکار۔دہشتگردی کی آڑ میں امریکہ ہمارے اوپر ڈرون گراتاہے۔افغانستان ہمیں آنکھیں دکھاتا ہے اور ہمارے اوپر برود برساتا ہے۔ ایران ہمارے خلاف غیر مسلم ممالک کی حمایت میں مصروف ہے۔یہ کیا ہو رہا ہے کہ ہم کئی کھرب ارب ڈالرز بھیک مانگ کر بھی اپنے بحرانوں پر قابو نہیں پا سکے۔ہم آج بھی اپنے ملکی مسائل میں گھیرے ہوئے ہیں۔اتنی زیادہ رقم ہر سال خرچ مگر مسائل کا حل صفر۔
یہ کیا ہو رہا ہے کہ ہماری خارجہ امور کی وزارت ہی موجود نہیں۔ہمارے وزراء آپس میں لڑے اور بٹے ہوئے ہیں کرپٹ اور ناا ہل تو ہیں ہی بد دیانت بھی ہیں۔ملکی صورتحال جیسی بھی ہو انکی انا قائم رہنی چاہیے۔ہماری اپوزیشن جماعتیں سبحان اللہ انہیں بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینا تب یاد آتا ہے جب ملک مسائل میں گھرا ہو اور بیرونی دبائو بھی ہو۔محترم قادری صاحب بھی تب ہی وطن تشریف لاتے ہیں جب پاکستان اور اسکی حکومت پر بیرونی پریشر موجود ہو۔آپ انصاف کی بات کرتے ہیں بہت اچھی بات ہے۔مگر خدارا انصاف عوام کے لئے مانگیں۔انصاف کی آڑ میں اپنی سیاست کو نہ چمکائیں۔دوستو آج بھی ہمارا وطن اندرونی مسائل سے دو چار ہے۔اور ہمارے لیڈر آپس کی لعن تعن میں مصروف کوئی کرسی بچانے میں اور کوئی کرسی گرانے میں لگا ہوا ہے۔روز بروز انصاف کو روندتے ہیں نا انصافی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ہم اپنے اندرونی مسائل سے ہی باہر نہیں نکل پا رہے تو ہم بیرونی معاملات کو کیا سلجھائیں گے۔
دوستو امریکہ اور بھارت کو ہر گز گوارا نہیں کے پاکستان چین اقتصادی راہداری کسی انجام کو پہنچے کیونکہ اس کے مکمل ہونے کے بعد پاکستان اور چین کی حالت خطے میں مضبوط ہوگی۔اور دونوں مخالف اسے نا کام بنانے کے لئے طرح طرح کی سازشیں کر رہے ہیں۔پاکستان میں عدم استحکام پھیلا رہے ہیں۔ہم ہیں کے جانتے ہی نہیں جانتے ہیں تو مانتے نہیں۔یہ ہو کیا رہا ہے ہمیں جاننا بھی ہوگا پہچاننا بھی ہوگا اور ماننا بھی ہوگا ۔نہیں تو ہمارا حال بد ترسے بھی برا ہو جائے گا۔آخر میں اور لینڈو حملے کے بارے چند الفاظ۔امریکہ ایک سپر پاور ہے اور اسکی پالیسیاں اسکی سیکیورٹی اسکی انٹیلی جنس ایجنسیاں سب سے بہتر۔
مگر ایک شخص جو کہ انکی واچ لسٹ میں موجود ہو اس پر شک بھی ہو۔اٹھ کر سر عام ایک کلب میں فائرنگ کرتا ہے اور کلب میں داخل ہونے سے پہلے ہیلپ لائن پر کال کر کے اپنے ارادے کی خبر کرتا ہے مگر پھر بھی وہ دو گھنٹے کلب میں موجود رہتا ہے اور اپنا کام بڑی آسانی سے انجام دیتا ہے دو گھنٹے امریکن نمبر ون پاور کی پولیس اسے یہ کیسے کرنے دیتی ہے اور اسے روک کیوں نہیں پاتی۔کیا امریکی ادارے اس میں سوالیہ نشان نہیں۔اس واقعے کے پس پردہ باتوں سے کوئی آگاہ نہیں۔ایک عرصہ لگے پس پردہ باتیں نکلنے میں۔افغانیو اور ایرانیو یاد رکھو کافر کبھی تمہارا دوست نہیں ہو سکتا۔
آج اپنی ذلت کا سبب یہی ہے شاید
سب کچھ ہے یاد مگر خد ا یاد نہیں
تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل