تحریر: انجینئر افتخار چودھری
یہ بائیں تصویر دیکھئے ہماری بد قسمتی کی زندہ علامت۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے کسی گائوں کے اسکول کی تصویر ہے۔گارے اور مٹی سے بنی دیواریں اور ان کے اوپر گھاس پھوس۔یہ بد قسمتی سے زیادہ بے حسی اور بے شرمی کی تصویر ہے۔ یہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے باعث ننگ نہیںہے بلکہ ہم سب سمیت پاکستان کے ذمہ داران کے لئے بھی ہے جو اقتتدار کی کرسی پر بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی ملک کو کھانا شروع کر دیا۔اس سربراکے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے جسے یہ سب کچھ دکھائی دینے کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
قارئین یہ ہمارے میڈیا کے ان اینکرز حضرات کے لئے بھی ہے جنہوں نے اربوں کھربوں کی کرپشن کی بات کی جو سر شام بیٹھ کر مرغے لڑاتے ہیں،ان چینیل مالکان کے لئے بھی باعث ندامت ہے جو تحقیقی صحافت کی بجائے شام کو ایک میز سجاتے ہیں مختلف پارٹیوں کے لوگوں کو بلا کر آپس میں بحث مباحثہ کروا کے اٹھ جاتے ہیں انہیں علم ہے کسی میر پور متھیلو گہوٹکی میر پور خاص مہمل کی ماڑی جانے سے بہتر ہے یہیں دکانداری سجا لیں کیوںکہ خرچہ ہوتا ہے۔
قارئین کرام پاکستان کا مستقبل روشن ہے یہ میں بھی سنتا ہوں اور آپ بھی۔مجھے صرف یہ بتا دیں کہ کیا اس اسکول سے نکلے ہوئے بچے کا بھی مستقبل اتنا ہی روشن ہے جتنا کسی گرامر اسکول کے بچے کا ہے اس بیچارے کوکسی گرامر اسکول کے بچے سے مقابلہ کرا کر اسے نوکری دی جائے گی اور کیا یہ اس مقابلے میں پاس ہو جائے گا؟۔ اس بات کو آپ چھوڑ ہی دیں کہ آپ لاکھوں لگا کر جو بچہ پڑھا رہے ہیں اسے اسلام اور دو قومی نظریے کا کتنا علم ہے،اس کے دفاع کے لئے اسی گھاس پھوس اسکول کے بچے کو ذمہ داری نبھانی ہو گی ۔(یاد رکھئے اب گرامر اسکولوں میں سیکس بھی ایک سبجیکٹ ہو گا)۔
اے مقتتدر لوگو!اگر آپ مقابلے کے لئے معیار ایک رکھتے ہیں کوٹہ سسٹم کو ختم کرتے ہیں تو خدارا ان بچوں کو ایک سی پچ بھی دیں انہیں برابر کا موقع دیں۔نہیں تو آئیندہ سو سال کے لئے کوٹہ سسٹم برقرار رکھئے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ امیر کا نالائق بچہ روپوں کے تھیلے فیس میں دے کر غریب کے بچے سے مقابلہ کر کے اس کی نوکری چھین لے اسے دھکا دے کر پیچھے کر دے۔حالیہ دنوں میں وزیر اعظم نے جب یہ کہا کہ ہمیں لوگ میٹرو بنانے سے منع کرتے ہیں تو دل خون کے نسو رویا اور یہ بچے ذہن میں گئے۔
جس قوم کی ترجیح تعلیم نہیں اس نے ترقی خاک کرنی ہے جس نے میٹرو بھی بنانی ہے تو اس میں میں ٦ ارب روپوں کا گھپلہ کرنا ہے۔گویا پرایا مال اپنا۔ یاد رکھئے جس نے مال پانی بنانا ہوتا ہے وہ خریداری کرتا ہے خرچ کرتا ہے اور ان اخراجات میں حرام شامل کر کے اپنا پیٹ بھرتا ہے۔مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ ہماری قوم کے لوگ سمجھ جائیں کہ ان کا اچھا کون چاہ رہا ہے اور ان کا برا کون۔میں ٢١٠٢ میں کوریا گیا تو وہاں ہنڈائی کے سینیئر شخص سے پوچھا کہ کوریا بدلا کیسے؟اس نے کہا تعلیم سے۔
قارئین یہ یاد رکھئے کہ کوریا نے ایک وقت پاکستان آ کر ایوب خاں کے دور میں ہمیں سٹڈی کیا کہ ہم کیسے بدلے؟مسٹر ٹیری کم نے کہا یہاں ایک فوجی آیا تھا اس نے تعلیمی ایمرجینسی نافذ کی تھی۔اس کے تحت کسی کورین بچے کو اسکول جانے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔اس آمر نے ان بچوں کو وردی کھانا اور وظیفہ دیا اور جو ماں باپ بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے تھے انہیں جیل بھیجا۔ یہ تھی تبدیلیْ۔
کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟کیا ہم ان بچوں کو جو لاکھوں کی تعداد میں اسکولوں سے باہر ہیں اسکولوں کے اندر لا سکتے ہیں؟کیا ہماری اسمبلیاں ایسے قوانین پاس کر سکتی ہیں۔یاد رکھئے کے پی کے خاموشی سے پنجاب کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔وہاں کے بچے اسکولوں میں جا رہے ہیں۔اساتذہ کو بہترین تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔پچھلے دنوں دس ہزار اساتذہ کو کیش انعامات دیے گئے۔کیا پنجاب حکومت سندھ اور بلوچستان حکومت ایسے اقدامات کرے گی؟وزیر اعلی پنجاب کے دانش اسکول کہاں ہیں؟کدھر گیا ان کا پنجاب بدلنے کا خواب؟
سڑکین نالیاں گلیاں پل میٹروز یہ بھی ضروری ہیں لیکن میرا خیال ہے اگر ہم نے اپنے سو فی صد بچوں کو اسکول بھیج دیا اور انہیں پڑھا لکھا کر متعلم پاکستانی بنا دیا تو اس صدی کی سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔بد قسمتی دیکھئے ہمارے اندرون ملک ادارے تو تباہ ہو ہی رہے تھے باہر بھی ہم لٹ گئے جدہ کے اسکولوں کی داستانیں پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔اسی طرح دوسرے اسکولوں کا عالم بھی ایک جیسا ہے۔
قوم کو اس وقت پڑھے لکھے پنجاب کی نہیں پاکستان کی ضرورت ہے۔یقین کیجئے قوم بنانی ہے تو استاد بنائیں۔جاپان کی ترقی کا سبب اساتذہ تھے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد بادشاہ نے پوری دنیا سے استاد منگوائے اور قوم تیار کی۔ہمیں چاہئے کہ اچھے استاد اس معاشرے میں داخل کریں۔
پاکستان ڈوب رہا ہے ہم اس خطے کی سب سے کم ترقی کرنے والی قوم ہیں سکم اور بھوٹان بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی کم۔کیا ہمیں اب اپنے آپ کو کوسنا ہے؟ یا ہمین اپنے آپ کو بدلناہے؟ اگرہم اب بھی کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہم سکم بھوٹان بنگلہ دیش بھارت سے آگے نہ نکل جائیں۔کسی نے پوچھا کہ ہاتھی کھا سکتے ہو تو خاموشی چھا گئی لیکن ایک کانگڑی سا بندہ اٹھا اور بولامیں کھائوں گا۔پوچھنے والے نے پوچھا وہ کیسے اس نے کہا بائٹ بائی بائٹ یعنی نوالہ نوالہ کر کے۔میرا خیال ہے پاکستان ہاتھی کھا سکتاہے لیکن شرط یہ ہے کہ اقتتدار کسی کانگڑی کے پاس ہو۔
تحریر: انجینئر افتخار چودھری