اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف سیاسی جوڑ توڑ کے بعد مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے متعلق امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان اب ایک نئے لیکن مشکل دور میں داخل ہوگیا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی حکومت کو اب کئی سخت فیصلے کرنا پڑیں گے ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے لیکن انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے گٹھ جوڑ اور ان کی سازشی تھیوری کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ امریکی تھنک ٹینک اداروں نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں آنے والی نئی لیڈرشپ ملک کو نئے اور مشکل دور سے کس طرح نکالتی ہے ۔پروفیسر اجے کمار شرما کا کہنا ہے کہ حالات کی نزاکت کے تحت عمران حکومت کو کئی سخت فیصلے کرنا پڑیں گے جن کی اجازت ان کا پارٹی منشور نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو متنازعہ بنانے میں ملکی و غیر ملکی افواہ ساز اداروں جیسا کردار پاکستان کی سالمیت کے لیے نیک شگون نہیں۔ امریکہ نئی پاکستانی حکومت سے مشروط طور پر کام کرنے کیلئے تیار ہو گا ۔۔پینٹاگون پاکستان کے مذہبی مدرسوں کو نئے تقاضوں میں ڈھالنے کیلئے عمران حکومت کی مالی مدد کر سکتا ہے ۔ امریکی اسکالر مائیک ڈیوڈیسن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نئی حکومت کو مستقبل میں مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر باصلاحیت لیڈرشپ ہوئی تو وہ ایک سال میں ہی پاکستان کو نہ صرف امن کا گہوارہ بنا دے گی بلکہ معاشی و اقتصادی میدان میں بھی آگے لے کر جا سکتی ہے ۔ قومی اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جو سیاسی جماعتیں مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کریں گی امریکہ ان کی مخالفت کرے گا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو چاہئیے کہ وہ ان مذہبی جنونی گروپوں کیساتھ اتحاد کرنے سے اجتناب برتیں ۔ ڈاکٹر رامیرو ہوزے کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کے بدلتے ہوئی سیاسی ماحول پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ ٹرمپ انتظامیہ نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان اور خطے کے دیگر ایشوز پر بات چیت کرے گی ۔افغان جنگ کو کامیابی سے ختم کرنے کے لیے اگر پاکستان نے امریکہ کا کُھل کر ساتھ دیا تو ٹرمپ انتظامیہ کا جو جھکاؤ بھارت کی طرف ہے اس میں کمی آسکتی ہے ۔ نئی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو ان مذہبی جماعتوں سے اجتناب برتنا چاہئیے جن کی ہمدردیاں طالبان اور شدت پسند افراد کے ساتھ ہیں۔