وزیراعظم نوازشریف جو وزارت خارجہ کا بوجھ بھی سنبھالے ہوئے ہیں 24اگست کو جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے والے ہیں۔ جیساکہ یہ ثابت شدہ کیس ہے کہ جناب وزیراعظم+وزیر خارجہ کتنے ہی اہم مواقع پر وزیراعظم تو وزیراعظم بطور وزیر خارجہ بھی نظر نہ آئے، جبکہ ’’پاکستانی وزیر خارجہ‘‘ کی طرف سے کوئی ایکشن، ابلاغی رسپانس یا عندیہ ہی آنا چاہئے تھا۔ایسے میں عوام خصوصاً حالات حاضرہ کے تجزیے کی اوسط صلاحیت رکھنے والے پاکستانیوں، میڈیا اور متعلقہ موضوع کے اسٹیک ہولڈرز کو یہ خلاء شدت سے محسوس ہوا کہ کدھر ہیں ہمارے وزیراعظم (+وزیر خارجہ)۔ ایسے اہم لمحات میں پاکستان کی طرف سے مکمل خاموشی طاری رہی اور اگر وزارت اور وزیراعظم کے دونوں محترم بزرگ معاونین میں سے کوئی بولا بھی تو اس کی اتنی اہمیت اور اثر نہیں ہوا کیونکہ یہ بھی اپنے عہدے کے حوالے سے وزیر خارجہ والی اہمیت کے حامل تو نہیں جبکہ رسپانس وزیر خارجہ کی سطح سے مطلوب تھا اور وزیراعظم یہ سمجھتے رہے کہ میں اس سے اوپر کی سطح پر ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کو وزیراعظم نوازشریف کے برسراقتدار آتے ہی خارجی اموراور علاقائی و بین الاقوامی تعلقات کے تیز ہوتے مدوجزر کے مطابق پاکستانی وزارت خارجہ کی کیپسٹی میں اک نتیجہ خیز اضافے کی ضرورت تھی۔
ہوا الٹ جناب نوازشریف نے تیسری بار وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی تو بغیر کسی جواز کے وزارت خارجہ کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر لاد لیا۔ تیسری بار وزیراعظم بننے والے کی کیپسٹی اتنی تو ہونی چاہئے کہ وہ اس غیر معمولی فیصلے پر عوام کو اعتماد میں لیتے۔ اگر کوئی اس عہدے کا اہل نظر نہیں آیا یا کسی پر اعتماد نہیں تو ایسے میں ہر دو معاونین بزرگوں میں سے ہی کسی ایک کو سینیٹر بنا کر یہ قومی فریضہ تو پورا کرتے کہ پاکستان کےپاس انتہائی پیچیدہ حالات میں ایک مکمل وزیر خارجہ ہوتا ۔ دونوں کے پاس تجربہ بھی ہے۔ اوپر سے وزیراعظم صاحب کے صحت کے مسائل بھی پیدا ہوئے۔ اب یہ ثابت شدہ کیس ہے کہ انتہائی اہم اور حساس بنتی اور مسلسل پھیلتی صورتحال میں نواز حکومت نے شدت سے مطلوب وزارت خارجہ کی کیپسٹی میں اضافہ تو کیا کرنا تھا خود ہی اس کی روایتی مطلوبہ کارکردگی میں رکاوٹ بن گئے۔ کم از کم اولین عملی اور شدید ضرورت اتنی تو تھی کہ ایک انتہائی مستعد، سرگرم اور طاقت کے تقاضوں کے مطابق وزیر خارجہ نواز کابینہ میں شامل ہو کر پوری دنیا کو پاکستان میں گڈ گورننس کا پیغام دیتا خصوصاً تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی صورتحال میں۔ یہ ثابت شدہ کیس اور انتہائی قابل افسوس و تشویش ہے کہ جاری بنتے خارجی امور بمطابق مینج نہیں ہو پائے نہ ہورہے ہیں۔ رونا یہ ہے کہ بیڈگورننس مثبت تنقید اور مسلسل توجہ دلانے کے باوجود بدستور موجود ہے۔
وزارت خارجہ کی اس زبوں حالی کا برا اثر داخلی امور مملکت پر بھی منفی پڑا ہے۔ یہ جو ایک پیج پر نہ ہونے کی نشاندہی آئے دن میڈیا کررہا ہے اس پر کوئی ہل جل نہ ہونے کی فکر سے حکومت تو آزاد ہے، اپوزیشن بھی اس حوالے سے بطور اپوزیشن اپنے فریضے کی انجام دہی میںناکام ہے کیونکہ اس کی ساری توجہ کوئی ایسا مسئلہ کھڑا کر کے فقط حکومت کو گرانا ہے۔ پاناما ہاتھ تو لگا لیکن بحیثیت مجموعی ’’متحدہ اپوزیشن‘‘ منوانے کی کیپسٹی سے محروم ہے۔
خارجی امور پر ملکی موجودہ صورتحال کے اس پس منظر کے ساتھ پاکستان اقوام عالم سے مخاطب ہونے والا ہے جو یقیناً ایک بڑا سفارتی چیلنج ہے۔ اولین مسئلہ تو پاکستان کے لئے کشمیر کا ہے لیکن اب جبکہ کشمیر میں چلنے والی انتفادہ (پرامن تحریک) کوپاکستان کی بھرپور لیکن پرامن اورسفارتی معاونت کی شدت سے ضرورت ہے اور جسے مہیا کرنے کی صورتحال مکمل سازگار ہے،، اس پر ڈھیلا ڈھالا پاکستانی حکومتی رویہ قوم کے لئے باعث فکر ہے۔مسلسل تنقید اور میڈیا کے نوٹس (بشمول آئین نو میں بار بار کی نشاندہی) کے بعد حکومت نے جو پارلیمانی وفود کشمیریوں پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف عالمی رائے عامہ کو آگاہ کرنے کے لئے ترتیب دیئے ہیں، وہ حکومت کے روایتی اورنااہلی پر مبنی رویے کا واضح ثبوت ہے۔ یہاں بھی حکومت زیادہ تر ’’اپنے اپنے‘‘ کی روایتی سوچ سے باہر نکل نہیں سکی۔ وفود میں مطلوب پوٹینشل کے ارکان (ماسوائے دو تین کے) ہیں نہ ہی اپوزیشن کے۔ نہ جانے یہ اتمام حجت کتنے کروڑ میں قوم کو پڑے گا، نتیجہ تو کوئی خاص نکلتا نظر نہیں آتا۔ حالانکہ نکلنے کی فضا بنی ہوئی ہے۔
24 ستمبر کو وزیراعظم نوازشریف، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے جو خطاب کرنے والے ہیں، اس کی پہلی سفارتی کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ سالانہ اجلاس میں شریک مندوبین وزیراعظم کی تقریر کو پاکستان کی جانب سے عالمی برادری سے اسے ایک اہم ابلاغ سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سنیں۔
بھارتی حکومت کے مسئلے کو دبانے کے تمام تر ہتھکنڈوں میں ناکامی کشمیریوں کی جاری تحریک کو عالمی برادری کے سامنے اس کا خالص مقامی اور مکمل پرامن ثابت کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس کے لئے ان کی تقریر متعلقہ حوالوں سے بھرپور ہونی چاہئے۔
خود اسرائیل اور عالمی برادری پر یہ واضح کرنا لازم ہے کہ اس نے انسانی زندگی کو خطرناک اور طویل نقصان (نابینا ہونا بھی) کے لئے جو چھرے دار پیلٹ گنز بھارت کو مہیا کی ہیں، بھارت ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہوتے ہوئے اس کا بے تحاشہ اور انتہائی بے رحمانہ استعمال کررہا ہے۔ اس کی اس ریاستی دہشت گردی سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ نابینا ہوگئے ان کے چہرے ہمیشہ کے لئے مسخ اور جسم چھلنی ہوگئے۔ وزیراعظم کو عالمی برادری کے سامنے یہ سوال ہر حال میں اٹھانا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے اورپرامن کشمیریوں پرمسلسل ہونے والے حملے دہشت گردی ہے یا نہیں؟ اسے رکنا چاہئے یا نہیں؟ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح سے ہفتوں سے خوراک، ادویات اور دوسری بنیادی اشیاء ضروریہ کی سپلائی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور طویل ترین ریکارڈڈ کرفیو نے انسانی زندگی کے لئے جو گمبھیر صورتحال پیدا کردی ہے، اس پر اقوام متحدہ کو عالمی برادری کا ’’فیکٹس فائینڈنگ مشن‘‘بھیجنا چاہئے یا اس پر بدستور خاموش رہ کر اقوام متحدہ کی ساکھ کونقصان پہنچانا ہے۔
پاکستان عالمی برادری کی توجہ مبذول کراتے ہوئے سوال کرے کہ عالمی ادارے کا اگر کوئی ملک کسی مسئلے پر اپنے موقف کے برخلاف قرارداد کو تسلیم نہ کرے اور کسی تنازع پر عشروں بزور فوج قابض رہے تو اس پر اقتصادی پابندیاں یا کوئی اور عالمی برادری کی صورت ہونی چاہئے یا نہیں۔
یہ سوال بھی اٹھانا چاہئے کہ سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبران میں کسی ایسے ملک کا اضافہ ہوسکتا ہے جو خود سلامتی کونسل میں منظور ہوئی قراردادوں پر عمل درآمد میں رکاوٹ بن جائے۔ نیز یہ کہ اقوام متحدہ کا چارٹر قیام عالمی امن کے لئے ارکان کے انفرادی ’’قومی مفادات‘‘ سےزیادہ مقدم نہیں یا ممالک کو اس کی خلاف ورزی کرنے والے ممبر سے وابستہ محدود قومی مفاد کی آڑ میں خاموشی اور ’’غیر جانبداری‘‘ اختیار کرلینی چاہئے۔ وما علینا الالبلاغ