تحریر : شاہ بانو میر
پاکستان سے فرانس آتے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنت تو ملی مگر اپنوں سے خالی اداسی تنہائی خاموشی اور ایسے میں اگر ہم جیسے نام کے مسلمان ہوں تو ان کی اداسی فلموں ڈراموں گپ شپ آئے روز ہوٹلنگ اور شاپنگ کی صورت ہی تحلیل ہوتی تھی- مصنوعی مصروفیات کو بڑھا کر بظاہر زندگی کو مصروف اور خوشنما بنا لیتے تھے مگر جلد ہی اس عارضی بے مقصد زندگی کے نتائج عیب جوئیوں اور جھگڑوں کی صورت نمودار ہوتے اور بڑی سرعت سے عارضی سطح پر قائمیہ مفاد پرست “” ٹائم پاس”” ابدی نیند سو جاتا -اور سب مزید کسی اور مصنعی مصروفیت کی تلاش میں نکل پڑتے۔
پھر اچانک برطانیہ کے کئی خوفناک مثالیں سامنے آنی شروع ہوئیں تو اہل دانش چونکیں- وہ بھی دولت کی ترقی کی اس اندھی دوڑ میں شامل ہو رہے تھے- مگر ان کی ذاتی زندگی اور اولاد کی ناکام زندگیوں نے جیسے انہیں لرزا دیا ایسی ہولناک مثالوں کو سنتے ہی فرانس میں 90 کی دہائی میں سنجیدگی کے ساتھ اپنی نسل کو محفوظ کرنے کیلئے مذہبی اداروں کے قیام پر سنجیدگی سے اپنی مدد آپ کے تحت شروع کرنے پر غور و خوض شروع ہوا- مذہبی ادارے بنے وہاں اپنے بچوں کو ذوق و شوق سے لے جانے کی روایت شروع ہوئی۔
الحمد للہ ان مذہبی اداروں نے حقیقی معنوں میں ایک ایسی نسل تیار کی جو دیار غیر میں واقعی اسلام کی عملی شناخت دکھائی دیتی تھی- مرد حضرات نے مراکز قائم کرنے کیلئے دن رات وقف کئے جہاں وقت دینا پڑا راتیں جاگ کر اس کار خیر کیلئے ذہنوں کو تیار کیا- جہاں مال دینا پڑا سب نے حتی الوسع مدد کی جبکہ دوسری جانب خواتین کیلئے بہت زیادہ الفاظ لکھنا چاہوں گی- کہ ایک ماں کو جب شعور ملا تو گھروں کا ماحول مصنوعی مصروفیات سے باہر نکلا فلمیں ڈرامے شاپنگ ہوٹلنگ پارٹیز میل ملاپ محدود ہونے لگا۔
مصنوعی مصروفیات کی جگہہ نماز کی پابندی قرآن پاک کا ترجمہ سمجھنا عمل کرنے کی کوشش کرنا بچوں کے ساتھ شفقت اور نرمی کا رویہ مزید بہتر بنا کر گھر کو وقت دے کر باہر سے دامن چھڑا کر اصل اسلام کو دھیرے دھیرے گھر میں لاگو کیا- گھریلو زندگی مزید پرسکون ہوگئی رشتے اولاد تعلق اب نکھرنے لگے سچائی کے ساتھ ریاکاری سے پاک- مقصد زندگی میں شامل ہوا اپنی نسل کے تحفظ کیلئے ہمارے بعد آنے والی یہ نوجوان باشعور مائیں سراپا جہاد بن گئیں۔
طاغونی شیطانی قوتوں کے خلاف اپنے مائیں مجاہدہ بن گئیں- زبان چھوٹی اور دل بڑے اس مقولے کو سمجھا دوسرے کے عیوب کو پس پشت ڈالا اور اپنی ذات پر محنت شروع کر دی- دینی اداروں نے منظم انداز تنظیمیں تشکیل دیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک بچیوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں ایسے خوبصورت اسلامی پیکر میں ڈھل گئیں- جس میں سچائی دین سے محبت آپ سے ایسا لگاؤ کہ سبحان اللہ کاپیاں بھر گئیں صفات نبوی سے زبان تر ہوگئی ذکر مبارک سے نوجوان بچیاں پہلے پیش پیش تھیں۔
اب معصوم چھوٹٰی چھوٹی 6 سے 8 سال کی کلیاں جتنی محبت سے مشکل الفاظ استعمال کرتی ہیں اردو اور پنجابی کی نعتوں کو پڑھتے ہوئے بے ساختہ ان کے ماتھے چومنے کو جی چاہتا ہے اور ان کی نوجوان ماؤں کو گلے لگانے کو جی چاہتا ہے جو جان گئیں ہیں کہ یہاں نسلیں اگر بچانی ہیں تو دینی مراکز کے ساتھ ساتھ گھریلو سچی تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے- الحمد للہ وقت ایسا آگیا ہے کہ سادہ لوح خواتین نے دین کا وہ محفوظ اور مضبوط معیار قائم کر دیا ہے- جس پر جھوٹی وقتی دینی نمائش جیسی کوئی “” وقت گزاری”” کی سوچ اثر انداز نہیں ہو سکتی- سلام ہے ان نوجوان ماؤں کو جنہوں نے اپنی نسل کی نس نس میں ابتداء سے اسلام کی سنت کی ایسی محبت کا بیج بو دیا کہ جو وقت کے ساتھ ایک گھنے خوبصورت اسلامی باغ میں تبدیل ہو کر انشاءاللہ یورپ میں اصل سچے پُرامن پرسکون اُس اسلام کو متعارف کروائیں گی جو قرآن پاک میں محفوظ ہے۔۔
سلام ہے اس دور کی نوجوان ماؤں کی ذہنی فکری باشعور سوچ کو جو ان کی بچیوں کے عمل سے جھلک رہی ہے – آپ نے قرآن پاک سنت کو تھام کر پہلے اپنی ذات کی طہارت کی اور خلوص کے ساتھ اپنے مقصد پر بغیر کسی جاہلانہ سوچ کے عمل کیا کشادہ سوچ کو اپنایا اور آج کامیابی آپ کی اولاد کی صورت آپکا مقدر بنا دیا گیا – جو ہم نہ کر سکے وہ آپ نے کر کے دکھا دیا۔
تحریر : شاہ بانو میر