تحریر : ثمینہ راجہ
گزشتہ کچھ دنوں سے ہر طرف ایک ہی خبر کی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ پاکستان گلگت کو باضابطہ طور پر اپنا صوبہ بنانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں اقدامات شروع کیئے جا چکے ہیں یہ کوئی معمولی خبر نہیں ہے ۔پاکستان کا ایسا کوئی بھی قدم ریاست جموں، کشمیر و تبتہا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے تقسیم کر دے گا اور کشمیر کا مسئلہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ختم ہو جائے گا۔ میں توقع کرتی تھی کہ ریاست کی تمام محبِ وطن اور قوم پرست سیاسی پارٹیاں اس خبر پر بھرپور احتجاج کریں گی اور اتنا شدید ردِعمل ہو گا کہ پاکستان توبہ تائب ہو کر اپنے مذموم عزائم کو ترک کر دے گا ۔ مگر یہ میری خوش فہمی ثابت ہو رہی ہے ابھی تک کوئی آحتجاج نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی قابلِ ذکر بیان کسی سیاسی جماعت کی طرف سے دیکھنے کو ملا ہے۔ ہمارا ملک جموں، کشمیر و تبتہا 1947 سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم اور متنازعہ ہے جب 1948 میں ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں پیش ہوا تو 13 اگست 1948 کو اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے بھارت و پاکستان نے تنازعے کے حل کے لیئے رائے شماری کرانے کا فیصلہ کیا
اس فیصلے کو پاکستان اور بھارت دونوں نے دستخط کر کے تسلیم بھی کیا ۔ اس فیصلے کے تحت رائے شماری کے ذریعے طے کیا جانا قرار پایا کہ ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ ہو گا، پاکستان کے ساتھ ہو گا یا ریاست آزاد و خودمختار رہے گی۔ مگر 5 جنوری 1949 کو پاکستان کی تحریک پر اقوامِ متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں ریاست کا مستقبل صرف بھارت اور پاکستان کے ساتھ وابستہ کیا گیا اور ریاست کی خودمختاری کے حق کو حذف کر دیا گیا اور 1962 سے اس کے کچھ حصے کو چین نے بھی ہڑپ کر رکھا ہے پاکستان اور بھارت ریاست جموں و کشمیر کے تنازعے کو 1972 کے شملہ معاہدے کے تحت باہمی تنازعہ قرار دے چکے ہیں اور اس معاہدے کے توسط سے طے کر چکے ہیں کہ ریاست پر پاکستان اور بھارت کا حق ہے اور اس کے علاوہ اس کا اور کوئی حل نہیں ہے۔
بھارت اور چین بھی 1993 سے اقصائے چن کے تنازعے کو حل کر چکے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان Line of Actual Control کا تعین کیا جا چکا ہے اس ساری پیش رفت کے بعد 2010 سے اقوامِ متحدہ نے بھی ریاست جموں و کشمیر کو حل طلب مسائل کی فہرست سے خارج کر دیا ہے اور اس مسئلے کو پاکستان اور بھارت کا باہمی سرحدی تنازعہ قرار دے دیا ہے پاکستان اور بھارت اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیئے تمام حربے آزما چکے ہیں مگر کسی بات پر متفق نہیں ہو سکے۔
گلگت بلتستان کا علاقہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع اور وسائل کے باعث دونوں ممالک کے لیئے اہم ہے ۔ اسی طرح کشمیر وادی بھی اپنے قدرتی وسائل کی بدولت دونوں ممالک کے لیئے اہمیت کی حامل ہے ۔ ریاست کے ان علاقوں کو دونوں ممالک اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں اور کسی بات پر اتفاق نہیں کر پا رہے جموں اور لداخ کے علاقے غیر مسلم اکثریت کے باعث پاکستان کے لیئے کوئی کشش نہیں رکھتے اور اسی طرح آزاد کشمیر کی پٹی 100 % مسلمان آبادی کی وجہ سے بھارت کے لیئے کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اصل تنازعہ گلگت بلتستان اور وادی کا ہے دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ ریاست کو تقسیم کر دیا جائے، مگر کون کس حصے کا مالک بنے گا اس پر اتفاق نہیں ہو پا رہا پاکستان کے اقدامات سے لگتا ہے کہ شاید اب بھارت اور پاکستان اندرونِ خانہ کسی تقسیم پر متفق ہو چکے ہیں جہاں تک ریاستی عوام کا تعلق ہے تو وہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ریاست کو تقسیم نہیں ہونے دیا جائے گا مگر اس مقصد کی خاطر کوئی عملی جدوجہد کرنے کے لیئے تیار نظر نہیں آتے۔
باقی بچتے ہیں قوم پرست ۔ یہ بڑھکیں تو بہت مارتے ہیں مگر حقیقت میں نہ ہی تو ان کی کوئی سمت ہے اور نہ ہی دین ایمان ۔ ان میں سے اکثر بھارت یا پاکستان کے تنخواہ دار ہیں اور قوم پرستی کی آڑ میں درپردہ اپنے آقاوؤں کے منصوبوں پر کام کرتے ہیں ۔ ان قوم پرستوں کی حرکات و سکنات اور کرتوت دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ ریاست کو تقسیم کرنے کے بھارتی اور پاکستانی منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔
گلگت کو صوبہ بنانے کے پاکستانی اقدامات اب ریاست کے قوم پرستوں کو بھی ننگا کر دیں گے ۔ ابھی تک قوم پرستوں نے جو چُپ سادھ رکھی ہے، اگر یہ برقرار رہتی ہے تو پھر ہر کسی پر آشکار ہو جائے گا کہ قوم پرست بھی ریاست کو تقسیم کرنے کی سازش کا حصہ ہیں ۔ یہ ثابت ہونے کے بعد صرف یہ تحقیق کرنا باقی رہ جائے گا کہ کس کس کو کتنے کتنے پیسے ملے اور کون کہاں کہاں بکا۔
تحریر : ثمینہ راجہ